پولیس کو سیاست سے پاک ، میرٹ پر بھرتی یقینی بنانا اولین ترجیح ہے، آئی جی سندھ

سندھ پولیس میں بھرتیاں این ٹی ایس کے ذریعے ہوں گی،آرمی سے مددلی جائے گی، اے ڈی خواجہ پولیس کی صلاحیتیں رینجر ز کے مساوی ہونے تک کراچی آپریشن جاری رکھا جائے،سراج قاسم تیلی کا تقریب سے خطاب

منگل 9 اگست 2016 17:42

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔9 اگست ۔2016ء) انسپکٹر جنرل پولیس سندھ اے ڈی خواجہ نے اگلے 3ماہ کے اہداف پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی اولین ترجیح محکمہ پولیس کو سیاست سے پاک اور میرٹ کو یقینی بنانا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے آرمی کے تعاون سے اور این ٹی ایس کا امتحان پاس کرنے والے امیدواروں کو میرٹ پر محکمہ پولیس میں بھرتی کیاجائے گا۔

یہ بات انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی ) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب میں کہی۔ اس موقع پرچیئرمین بزنس مین گروپ( بی ایم جی ) و سابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی،وائس چیئرمین بی ایم جی و سابق صدر کے سی سی آئی ہارون فاروقی، صدر کے سی سی آئی یونس محمد بشیر، سینئر نائب صدر ضیاء احمد خان، سابق صدر کے سی سی آئی اے کیو خلیل، کے سی سی آئی کی خصوصی کمیٹی برائے اسمال ٹریڈرز کے چیئرمین مجید میمن،پی سی ایل کمیٹی کے چیئرمین حفیظ عزیز، منیجنگ کمیٹی کے اراکین اور چھوٹے تاجروں کے نمائندے بھی شریک تھے۔

(جاری ہے)

آئی جی سندھ نے کہاکہ پولیس اس وقت تک اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکتی جب تک اسے مکمل طور پر سیاست سے پاک نہیں کرلیاجاتا۔انہوں نے کہاکہ پولیس ہیلپ لائن 15 زیادہ مؤثر نہیں اسے مزید بہتر بناتے ہوئے اسٹیٹ آف دی آرٹ سہولت متعارف کروائی جائے گی جبکہ ٹوٹے ہوئے اور ناکارہ کیمروں کو اگلے تین ماہ میں تبدیل کرتے ہوئے شہر بھر میں فعال بنایا جائے گا۔

انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت زیادہ میگا پکسل والے کیمروں کی تنصیب اور موجودہ کیمروں کو اپ گریڈ کرنے پر غور کررہی ہے لیکن اس میں ایک سال لگ سکتا ہے تاہم اگلے تین ماہ کے دوران موجودہ کیمروں کو فعال بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔انہوں نے تاجربرادری کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ آگے آئیں اور متعلقہ مارکیٹوں میں کیمروں کی تنصیب کے حوالے سے محکمہ پولیس کی مدد کریں نیز نجی محافظوں کی خدمات حاصل کریں تاکہ محکمہ پولیس کی امن قائم کرنے کی کوششوں میں اضافی مدد مل سکے۔

آئی جی سندھ نے تاجربرادری کی جانب سے پولیس افسران کی تعداد میں اضافے کے مطالبے پر اعتراف کیا کہ 25ملین آبادی کے شہر کراچی میں امن وامان کی صورتحال کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے افسران کی تعداد انتہائی کم ہے جس میں اضافے کی ضرورت ہے۔کراچی میں قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے کم ازکم 20ہزار پولیس افسران کی ضرورت ہے تاہم عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے لئے سندھ حکومت کوفل الحال کراچی میں 10پولیس افسران کی فوری بھرتی کے لیے تجاویز ارسال کردی گئی ہیں۔

آئی جی سندھ نے کہاکہ کراچی بھر میں بڑے پیمانے پر ٹریفک کوکنٹرول کرنے کے لیے صرف 2200ٹریفک افسران ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جو شہر کے مختلف حصوں میں ٹریفک جام کی بنیادی وجہ ہے تاہم اب صورتحال یقینی طور پر بتدریج بہتر ہوگی کیونکہ 4700ٹریفک افسران کو بھرتی کیا گیاہے جو اگلے 6 سے 8 ماہ میں اپنی تربیت مکمل کر کے کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک کو کنٹرول کرتے نظر آئیں گے جس سے ٹریفک کی بلا رکاوٹ روانی ممکن بنائی جاسکے گی۔

انہوں نے کراچی چیمبر سے کہاکہ وہ پولیس کے متروک قوانین اور پولیس ایکٹ1861 کی تبدیلی کے حوالے سے سندہ حکومت کو قائل کرنے میں مدد کریں جس سے یقینی طور پرشہر میں پولیس کو فعال بنانے کے ساتھ ساتھ کئی مسائل سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔پولیس ایکٹ 1861 بہت کمزور اور غیرمؤثر ہو چکا ہے لہٰذا نئے نظام اور قوانین کو وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جرائم سے مؤثر طریقے سے نمٹا جاسکے۔

انہوں نے شہادتوں کی کمی کی وجہ سے مجرموں کی رہائی کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ محکمہ پولیس نے 2013سے 2016کے درمیان 80ہزار عناصر کو گرفتار کیا لیکن مجرموں کی شناخت کے لیے گواہوں کے پیش نہ ہونے کی وجہ سے کئی مجرم چند ماہ میں ہی رہا ہو گئے جو اسٹریٹ کرائمز میں اضافے کے بنیادی طور پر ذمہ دار ہیں۔انہوں نے عوام پر زوردیتے ہوئے کہاکہ وہ آگے آئیں اور بلا خوف و خطر مجرموں کی شناخت میں پولیس کے ساتھ تعاون کریں جس کے نتیجے میں صورتحال بہتر ہوگی اور نشاندہی کی صورت میں ایسے عناصر کم ازکم 4سال یا پھر اس سے بھی زائد مدت کے لیے سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔

آئی جی سندھ نے بتایا کہ سی آر پی سی کے سیکشن59اور پی پی سی کے سیکشن100،101 شہریوں کواپنی حفاظت کا حق دیتا ہے جو مجرمانہ سرگرمی کی صورت میں اپنی جان کے تحفط کے لیے لائسنس یافتہ اسلحے کا استعمال کرسکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ عوام اپنے لائسنس یافتہ اسلحہ ذاتی دشمنی کے لیے استعمال کرنے لگیں یا پھر غیر ضروری دکھاوا کریں جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔

اس موقع پر چیئرمین بزنس مین گروپ ( بی ایم جی) و سابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی نے کہاکہ کراچی چیمبر 1861کے فرسودہ پولیس ایکٹ کو پولیس ایکٹ2002سے تبدیل کرنے کے لیے آئی جی سندھ کی تجاویز کی مکمل حمایت کرتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ایک بار پھر بحال کر دیا گیا۔انہوں نے زور دیا کہ پولیس ایکٹ 2002کو چند ترامیم کے ساتھ لاگوکیاجائے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

انہوں نے 2013میں شروع کیے گئے کراچی آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ یہ آپریشن سندھ رینجرز اور سندھ پولیس نے مشترکہ طور پر جاری رکھا ہوا ہے جس کے نتیجے میں آج کراچی کا امن بحال ہوا اور 3سال پہلے امن وامان کی جو صورتحال تھی وہ قدرے بہتر ہوئی۔ میرا پختہ یقین ہے کہ ابھی بہت کچھ مزید کرنے کی ضرورت ہے اور اس آپریشن کو اگلے3سے4سال یا پھر اسے بھی زائد سالوں تک جاری رہنا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ کراچی آپریشن کا اہم پہلو یہ ہے کہ اسے نہیں روکنا چاہیے جب تک محکمہ پولیس کی صلاحیتوں میں ایک خاص سطح تک اضافہ نہیں ہوجاتا۔ کام کرنے کا طریقہ کار، انٹیلی جنس،ہتھیاروں کی فراہمی اور دیگر پہلو بشمول قابلیت جب تک رینجرز کے برابر نہیں ہو جاتی کراچی آپریشن معطل نہیں کیاجاسکتا ہے۔اگر پولیس کی صلاحیتوں میں اضافہ کیے بغیر کراچی آپریشن معطل کیا گیا تو گزشتہ 3سال میں حاصل کی گئی تمام کامیابیاں چند ماہ میں ہی ضایع ہو جائیں گی۔

سراج قاسم تیلی نے کہاکہ آئین شہریوں کو اپنے دفاع کا حق اور کسی بھی کرمنل کو گرفتار کرنے کے حق کو استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن عوام پولیس کے برے تاثر کی وجہ سے عموماً اپنے ان حقوق کے استعمال سے ڈرتے ہیں جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے عوام میں اپنے کی آگاہی بیدار کرنے کے لیے آئی جی سندھ سے درخواست کی کہ وہ کے سی سی آئی کو پمفلٹس اور اشتہارات فراہم کریں تاکہ اخبارات میں تشہیر کی جاسکے ، انہیں عوام میں تقسیم کیا جاسکے اور عوام اپنے حقوق کے استعمال کے بارے میں آگاہی حاصل کرسکیں۔

یہ ایک عبرتناک امرہے اور زمینی حقائق سے زیادہ اہم ہے۔اگر یہ تاثر بیدار کیاگیا کہ ہر شہری چاہے وہ مرد ہو یا عورت اپنے دفاع کے لیے اسلحہ رکھ رہا ہے اور اسے استعمال کر سکتا ہے تو اس سے اسٹریٹ کرائمز میں کافی حد تک کمی واقع ہوگی۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ کراچی چیمبر کی سفارشات پر تاجر برادری کے ممبران کو اسلحہ لائسنس کیا جائے تاکہ وہ اپنی جان ومال کی خود حفاظت کرسکیں۔

انہوں نے محکمہ پولیس کو سیاست سے پاک کرنے اوور میرٹ پر بھرتیوں پر بھی زور دیا۔ٹریفک قوانین کی عوام کی جانب سے خلاف ورزی پر انہوں نے کہاکہ ٹریفک پولیس افسران اور عوام کو برابرکا ذمہ دار ٹھرایا تاہم ٹریفک پولیس افسران کو قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروانا چاہیے اور خلا ف ورزی کرنے والوں کو کم سے کم روک کر ٹوکنا چاہئے ۔ اگر ایسا ہوا تو صورتحال میں کافی حد تک بہتری آئے گی۔

قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر یونس محمد بشیر نے آئی جی سندھ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کراچی آپریشن میں محکمہ پولیس کے کردار کو سراہا جس کے نتیجے میں صورتحال بہتر ہوئی اور عوام خود کو محفوظ تصور کررہے ہیں اور یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ جو لوگ بیرون ملک چلے گئے تھے وہ امن وامان کی صورتحال بہتر ہونے کے پیش نظر دوبارہ واطن واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔

کراچی میں 24ملین لوگ آباد ہیں جوایک بڑا سیکیورٹی چیلنج ہے۔گزشتہ 3سالوں کے دوران امن وامان کے قیام کے حوالے سے کئی اقدامات کیے گئے لیکن اسٹریٹ کرائمزکی بڑھتی وارداتیں اب بھی ایک بڑا سنجیدہ مسئلہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہمحکمہ پولیس کی تربیت کے ذریعے اصلاح انتہائی ضروری ہے جومیرٹ پر بھرتی کیے گئے افسران کی تربیت سے ہی ممکن ہے ۔رینجرز نے قیام امن کی ذمہ داریاں بالآخر پولیس کے سپرد کرنی ہیں لہٰذا یہ ضروری ہے کہ پولیس کو سیاست سے پاک کیا جائے تاکہ وہ شہر کو امن وآتشی کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکے۔

امید ہے کہ ہماری پاک سرزمین کودہشت گردی سے ضرور نجات حاصل ہوگی اور آنے والے دنوں میں مزید خون خرابہ نہیں ہوگا جو پورے پاکستان کی خوشحالی کے لئے انتہائی ضروری ہے