قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قومی تحفظ خورا ک وتحقیق نے پلانٹس بریڈرز رائٹس بل 2016ء کی متفقہ منظوری دیدی

بل پر 2005ء میں کام شروع کیا گیا ، گزشتہ حکومت نے ا س پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ، 5 سال میں کوئی پیش رفت نہیں کی ‘ موجودہ حکومت نے وسیع مشاورت کی،اس میں نجی شعبے کو بھی تحفظ دیا گیا ہے ، بل منظو رہونے سے بین الاقوامی سرمایہ کاری کا راستہ کھل جائے گا اور ان کی سرمایہ کاری کو قانونی تحفظ ملے گا‘ وفاقی وزیر سکندر بوسن کی بریفنگ

منگل 9 اگست 2016 18:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔9 اگست ۔2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی تحفظ خورا ک وتحقیقنے پلانٹس بریڈرز رائٹس بل 2016ء کی متفقہ طو رپر منظوری دیدی۔ وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی سکندر حیات بوسن نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ بل پر 2005ء میں کام شروع کیا گیا لیکن گزشتہ حکومت نے ا س پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور 5 سال میں کوئی پیش رفت نہیں کی ‘ موجودہ حکومت نے 2013ء میں اس پر دوبارہ کام کا آغاز کیا اور وسیع مشاورت کی۔

پرائیویٹ سیکٹر کو بھی تحفظ دیا گیا ہے۔ بل منظو رہونے سے بین الاقوامی سرمایہ کاری کا راستہ کھل جائے گا اور ان کی سرمایہ کاری کو قانونی تحفظ ملے گا‘ بل پر عملدرآمد سے ز راعت کو بہت فائدہ ملے گا اور موجودہ حکومت کا یہ ایک اہم کارنامہ ثابت ہو گا۔

(جاری ہے)

منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کا اجلاس کمیٹی چیئرمین ملک شاکر بشیر اعوان کی صدارت میں ہوا۔

اجلاس میں وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے حکام نے بل کے حوالے سے کمیٹی کو بریفنگ دی۔ کمیٹی نے بل کو متفقہ طور پر پاس کر لیا۔ وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سکندر حیات بوسن نے کہاکہ پلانٹ بریڈرز رائٹ ایکٹ پر 2005ء میں کام شروع ہوا۔ گزشتہ حکومت نے 5 سال کے دوران اس بل کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور کوئی پیش رفت نہیں کی۔ موجودہ حکومت نے 2013ء میں ا س پر دوبارہ کام کا آغاز کیا اور بل پر مشاورت کیلئے کافی اجلاس ہوئے اور وسیع مشاورت کی گئی۔

ممبر کمیٹی رانا محمد حیات سمیت دیگر ممبران نے اس میں کام کام کیا ۔ بعد ازاں اس کی رجسٹری کے مسئلے بنا تو پہلے کہا گیا کہ یہ آئی پی او کے پاس ہونی چاہیے لیکن بعد اس کی سمری وزیر اعظم کو بھیجی گئی۔ وزیر اعظم نے فیصلہ کیا کہ اس کی متعلقہ وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی ہے اس کو بھیجا جائے ۔ اس یہ وزارت کے تحت رجسٹرڈ ہو گا۔ بل میں پرائیویٹ سیکٹر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

یہ بل ایک اہم کارنامہ اور کامیابی ہو گی۔ اس کا پاکستان کی زراعت کو بہت فائدہ ہو گا۔ بل کو کمیٹی سے پاس ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے منظور کرایا جائے گا اور پھر سینٹ میں پیش کیا جائے گا۔ بل کے منظور ہونے سے بین الاقوامی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کا ایک راستہ بن جائیگا اور ان کی سرمایہ کاری کو قانونی تحفظ ملے گا ۔ وزارت کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ بل کی منظوری سے نئے پلانٹس کی ورائٹی میں اضافہ کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

رکن کمیٹی راؤ اجمل نے کہا کہ پاکستان میں بیجوں کی کوالٹی ناقص ہونے کی وجہ سے زراعت کی پیداوار متا ثر ہوتی ہے۔ بھارت میں اعلیٰ کوالٹی کے بیجوں کیلئے بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر کیا ہے لیکن پاکستان میں اس کا کوئی انتظام نہیں۔

متعلقہ عنوان :