بھارتی خفیہ اداروں نے کوئٹہ میں اپنا مکروہ چہرہ بے نقاب ہونے کے خوف کے باعث اوچھے ہتھکنڈے شروع کر دیئے

نام نہاد دہشت گرد کو جماعت الدعوہ اور لشکر طیبہ کا مبینہ کمانڈر ظاہر کرکے اعترافی ویڈیو جاری

بدھ 10 اگست 2016 22:49

بھارتی خفیہ اداروں نے کوئٹہ میں اپنا مکروہ چہرہ بے نقاب ہونے کے خوف ..

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔10 اگست ۔2016ء) بھارتی خفیہ اداروں نے کوئٹہ میں اپنا مکروہ چہرہ بے نقاب ہونے کے خوف کے باعث پاکستان کو دباؤ میں لانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے شروع کر دیئے ،نام نہاد دہشت گرد کو جماعت الدعوہ اور لشکر طیبہ کا مبینہ کمانڈر ظاہر کرکے اعترافی ویڈیو جاری کر دی۔بھارتی ٹی وی ’’این ڈی ٹی وی ‘‘ کے مطابق سیکیورٹی اداروں نے مقبوضہ کشمیر سے حراست میں لئے جانے والے لشکر طیبہ کے مبینہ کمانڈر بہادر علی عرف سیف اﷲ کی اعترافی ویڈیو جاری کی ہے جس میں بہادر علی نے پنجابی زبان میں 2منٹ 43سیکنڈ کے ویڈیو میں اعترافی بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے پہلی ٹریننگ جو کی اس کا نام دورہ طلبا تھا جو 2012ء میں مانسہرہ میں کی جس میں میرے ساتھ 50سے 60نوجوان شامل تھے ،جس کے بعد دوسری ٹریننگ جو کی اس کا نام ’’دورہ عامہ‘‘ تھا ، یہ ٹریننگ مظفر آباد میں 2014ء میں کی ،جس کیمپ میں ٹریننگ کی اس کانام ’’معسکر اقصی‘‘ ہے ،جس کے بعد میں نے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن میں بھی تین ماہ کام کیا جو جماعت الدعواۃ کا ایک شعبہ ہے ،تین ماہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن میں کام کرنے کا مجھے 10000ہزار معاوضہ ادا کیا ،ان کا دفتر لاہور لبرٹی گول چکر گلبرگ میں ہے ،لشکر طیبہ کا ایک کمانڈر ابو القاسم جسے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے مار دیا تھا کا غائبانہ نماز جنازہ حافظ محمد سعید نے چک62 مانگا گاؤں میں پڑھایا جس میں میں نے اپنے 3ساتھیوں کے ہمراہ شرکت کی ،2016ء کی گرمیوں کے شروع میں لشکر طیبہ پھر دوبارہ سر گرم ہو گئی،اور لڑکوں کو کہا گیا کہ اب جہاد کرنا ہے ،اور ٹریننگ کرنے کا کہا جس پر ہم اپریل 2016میں ہم 20سے 25لڑکے ٹریننگ کے لئے مظفر آباد ’’تبوک کیمپ ‘‘ جس کے امیر کا نام لشکر کے کمانڈر ابو سعداور فرقان تھا ،میں چلے گئے ، جہاں ہمیں اے کے 47،پسٹل ،ڈی ڈی شیٹ اور وائرلیس سیٹ کی ٹریننگ دی گئی۔

(جاری ہے)

ہمیں کہا گیا کہ جو پٹھان لڑکے ہیں انہیں افغانستان جہاد کے لئے بھیجا جائے گا اور ہمیں انڈیامیں جنگ کرنے کے لئے بھیجا جائے گا۔بھارتی خفیہ اداروں کی اس بھونڈی کوشش کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس نوجوان لڑکے کو لاہور کا شہری اور لشکر طیبہ کا کمانڈر بتایا گیا ہے اسے اردو بولنی نہیں آتی اور اس کا پنجابی لہجہ بھی کسی طور پر بھی لاہور اور اس کے گرد و مضافات میں رہنے والے کسی نوجوان سے میل نہیں کھاتا ۔