سانحہ سول ہسپتال کوئٹہ باعث عوام پر صدمے کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے ‘ایسے میں پورے ملک اور قوم کر اہلیان کوئٹہ کا پشت بان بننا ہوگا ، آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دوسری دفعہ قوم سانحہ کوئٹہ کے بعد متحد ہوگئی ہے ‘ واقعہ کے پیچھے ملک دشمن قوتوں ‘ کرپشن میں ملوث عناصر اور غیر ملکی ایجنٹوں کا گٹھ جوڑ کارفرما ہے ‘ آئین اور قانون کی بالادستی اور حفاظت کیلئے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا ‘ آئین سے بالااقدام مسائل کو مزید گھمبیر بنادے گا ، محمود خان اچکزئی کی محب الوطنی پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے ‘انہوں نے ہمیشہ آئین اور جمہوریت سے متعلق جو بات کی ہے وہ درست کی ہے ، مشرف اور ضیاء دونوں ڈکٹیٹر تھے تاہم ضیاء الحق کے متعلق نواز شریف سے پوچھا جائے تو بہتر ہوگا

جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی کوئٹہ میں پریس کانفرنس

بدھ 10 اگست 2016 22:57

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔10 اگست ۔2016ء ) جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ سانحہ سول ہسپتال کوئٹہ کے باعث بلوچستان کی عوام پر صدمے کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے ایسے میں پورے ملک اور قوم کر اہلیان کوئٹہ کا پشت بان بننا ہوگا ، آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دوسری دفعہ قوم سانحہ کوئٹہ کے بعد متحد ہوگئی ہے یہ ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگا ، واقعہ کے پیچھے ملک دشمن قوتوں ، کرپشن میں ملوث عناصر اور غیر ملکی ایجنٹوں کا گٹھ جوڑ کارفرما ہے ، آئین اور قانون کی بالادستی اور حفاظت کے لئے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا ، آئین سے بالااقدام مسائل کو مزید گھمبیر بنادے گا ، محمود خان اچکزئی کی محب الوطنی پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے انہوں نے ہمیشہ آئین اور جمہوریت سے متعلق جو بات کی ہے وہ درست کی ہے ، مشرف اور ضیاء دونوں ڈکٹیٹر تھے تاہم ضیاء الحق کے متعلق نواز شریف سے پوچھا جائے تو بہتر ہوگا ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے ہولناک واقعہ نے قوم کو غم کے پہاڑ کے نیچے دبا دیا ہے ہم تمام شہداء چاہے وکیل ہو ، صحافی ہو یا سول سوسائٹی کے افراد کے خاندانوں سے اظہار تعزیت کرنے کے لئے آئے ہیں ، گزشتہ روز کوئٹہ آنے کی کوشش کی مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا بعد ازاں اسلام آباد سے کراچی پہنچ کر زخمیوں کی عیادت کی بلکہ صحافیوں کے ٹی وی چینلز کے ہیڈ آفسز جا کر اظہار تعزیت بھی کی ۔

انہوں نے کہا کہ آج صبح کوئٹہ پہنچ کر ہائی کورٹ بلڈنگ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی اور چیف جسٹس بلوچستان محمد نور مسکانزئی سمیت صوبے کے سینئر وکلاء سے ان کے شہید ساتھیوں کے حوالے سے تعزیت کا اظہار کیا بلکہ ایک ایک شہید کے گھر بھی گئے اس واقعے کا مقصد ملک اور صوبے میں امن وامان کو تباہ کرکے انتشار پھیلانا تھا ۔ آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد ایک مرتبہ پھر قوم دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوگئی ہے اس وقت علاقائی اور دیگر تضادات سے بڑھ کر لوگ ملک و قوم کا سوچ رہے ہیں جب سیکورٹی اداروں اور حکومتوں نے سمجھ لیا کہ بلوچستان کے معاشی ، سیاسی اور دیگر مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے تو اس واقعے کو رونما کرکے ہر چیز کو ڈسٹرب کردیا گیا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ہمیں ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے جس سے تصادم کی فضاء بنتی ہو ۔ محمود خان اچکزئی کے ساتھ میرے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات ہیں ان کی محب الوطنی پر کسی کو بھی شک نہیں ہونا چاہیے ۔ انہوں نے ہمیشہ آئین اور جمہوریت کے لئے درست بات کی ہے لیکن ردعمل کے طور پر ایسی بے احتیاطی نہیں کی جانی چاہیے جس سے قومی وحدت میں رخنہ پڑے ۔

انہوں نے کہا کہ انسانیت دشمنوں نے عوام پر غم مسلط کیا ہے لیکن یہ غم اور صدمہ ملک و قوم کے لئے طاقت کا ذریعہ بنے گا جس طرح ملک بھر کے وکلاء اور دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے یکسو اور یکجا ہے ہمیں یقین ہے کہ یہ واقعہ ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگا ۔ سب سے حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ شہداء کے لواحقین مایوس کن نہیں ۔ انہوں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا اگرچہ انہیں پیاروں کی جدائی نے غم اور صدمے میں مبتلا کررکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ واقعہ ملک دشمن قوتوں ، کرپشن میں ملوث عناصر اور غیر ملکی ایجنٹوں کے گٹھ جوڑ سے ہوا ہے ان کے نیٹ ورک کو توڑنا حکومتوں اور فورسز کے لئے چیلنج سے کم نہیں ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سول ہسپتال کوئٹہ کے واقعے کا ماسٹر مائنڈ اور استعمال ہونے والوں کو بے نقاب کرکے عبرتناک سزا دینی چاہیے ۔ انہوں نے شہدا کے لواحقین کے لئے معاوضوں کی ادائیگی کا بھی مطالبہ کیا ۔

لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ واقعہ کے باعث بلوچستان پر غم کا پہاڑ ٹوٹا ہے ہماری سیکورٹی اداروں نے امن کے قیام کے لئے قابل تحسین قربانیاں دی ہیں ۔ موجودہ حالات سب کو مل بیٹھ کر کام کرنے کا سبق دیتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں کمزوریوں کو بھی ڈھونڈ نکالنا ہوگا ۔ صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ امریکہ اور نیٹو ممالک کو افغانستان میں شکست کا سامنا ہے اس لئے وہ پاکستان کو غیر مستحکم اور انتشار کا شکار کرنا چاہتے ہیں انہیں بلوچستان کے سیاسی اور معاشی سمیت دیگر مسائل کا گفت و شنید کے ذریعے حل گوارہ نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک مسئلے پر دشمن قوتوں کی نظروں کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں غلام مظفر وانی کی شہادت کے بعد جنگ آزادی کو نیا عروج ملا ہے ۔ وزیراعظم بھارت اور وزیر دفاع پہلے کہہ چکے ہیں وہ پاکستان پر دفاعی حملے چاہتے ہیں دہشت گردی کا نیٹ ورک اور را کے ایجنٹوں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے ۔ انہوں نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو غیر ذمہ دارانہ رویہ ترک کرناہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ حکومتیں دہشت گردوں کی سہولت کار بننے کی بجائے انہیں ختم کرنے کے لئے اقدامات کریں ۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ بھارت اور امریکی گٹھ جوڑ کوہمیں عالمی اداروں اور سفارتی محاذ پر مہارت کے ساتھ دنیا پر عیاں کرنا چاہیے ۔ بدقسمتی سے ہمارا وزیر خارجہ ہے اور نہ ہی مستقل پالیسی ۔ ملک میں معاملات کو ایڈہاک ایزم کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری قوم کو کوئٹہ کی عوام کا پشت بان ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ آئین کی بالادستی اور حفاظت سب کی ذمہ داری ہے اس سے ہٹ کر کوئی بھی اقدام مسائل کو مزید گھمبیر بنادے گی ۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں صاحب الرائے افراد کو کردار ادا کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی رہنماؤں پر غداری کے الزامات لگانا یا ایسے سرٹیفکیٹ بانٹنا درست نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں روس ، برطانیہ اور امریکہ نے جارحیت کی تو ہم نے اس دوران افغان بھائیوں کو یہاں لا کر بسانے کی حمایت کی اس وقت قوم پرستوں نے انہیں بھگوڑے کہا مگر آج وہ ہماری پالیسی کی تائید کررہے ہیں ۔ ہم نہیں چاہتے کہ رد عمل کی بنیاد پر افغان مہاجرین کے ساتھ کوئی ناروا سلوک کریں ۔ انہوں نے کہاکہ محمد خان شیرانی قابل احترام شخصیت ہے ان کے قرآن و سنت کی تعلیمات سے ہٹ کر بیان قوم پرستوں کے لئے خوشی جبکہ اسی کے مطابق بیان ناراضگی کا باعث بنتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ انٹیلی جنس اداروں اور سیکورٹی فورسز کا کام دشمن کے سازشوں کو ناکام بنانا ہوتا ہے اس وقت یہ خطہ عالمی قوتوں کی چراگاہ بن چکا ہے ۔ مشرف کے ایک ٹیلی فون کال پر امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنا آج درپیش حالات کا باعث ہے۔ ان سے جب ضیاء الحق کے متعلق پوچھا گیا انہوں نے کہاکہ وہ بھی ڈکٹیٹر تھا ان کی پالیسیاں بھی آمرانہ تھی تاہم اس سلسلے میں اگر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے پوچھا جائے تو بہت بہتر ہوگا ۔