قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باوجود سائبرکرائمز بل کثرت رائے سے منظور

جمعرات 11 اگست 2016 15:30

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔11 اگست ۔2016ء ) قومی اسمبلی نے اپوزیشن جماعتوں کی بنیادی انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی سے متعلق متعدد شقوں کی شدید مخالفت کے باوجود سائبرکرائمز بل کثرت رائے سے منظور کر لیا ،بل کے مندرجات میں لکھا گیا ہے پاکستانی کہیں بھی رہے جرم سرزد ہوا تو سزا ملے گی ۔ سائبر کرائمز بل الیکٹرانک جرائم کے تدارک کا ایکٹ 2016 کہلائے گا اور یہ فوری طور پر نافذ ہو گا ۔

یہ قانون ہر پاکستانی شہری پر لاگو ہو گا ۔ پاکستان میں فی الوقت رہائش پذیر ہر شخص پر اس قانون کا اطلاق ہو گا ۔ تاہم قانون کا اطلاق پاکستانی شہری کے بیرون ملک سرزد ہونے والے جرم پر بھی ہو گا، بیرون ملک سے کسی پاکستانی شخص، جائیداد، معلوماتی نظام یا ڈیٹا کو متاثر کرنے والے پر بھی قانون کا اطلاق ہو گا۔

(جاری ہے)

بل میں 51 شقیں شامل کی گئی ہیں ۔

وزیر مملکت برائے آئی ٹی انوشہ رحمان نے کہا کہ اسمبلی میں تقاریر کے بعد کس نے کہاں سے شاباش حاصل کی گئی باہر سے اس بل پر ڈکٹیشن لی گئی تھی۔سائبر کرائم بل سے خود کشیاں کم ہونگی،این جی اوز یہ چاہتی ہی نہیں کہ پاکستان میں سائبر کرائم بل منظور ہو،تین ترامیم قومی اسمبلی اور 18ترامیم سینیٹ نے دیں اور یہ صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے،کئی مہینوں کی مشاورت اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس بل پر عوامی مطمع نظر سنا گیا اور اس ایوان میں اس بل پر رپورٹ پیش کی گئی،اس بل کے ذریعے توازن پیدا کرنا چاہتے تھے،نام نہاد این جی اوز نے اعتراضات شروع کئے گئے۔

یہ بل حکومت کا بل نہیں بلکہ پارلیمان کا بل اپوزیشن کی ترامیم کے ساتھ بن گیا۔جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں سائبر کرائم بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ بل پر اپوزیشن نے شدید مخالفت کی ،اپوزیشن کی جانب سے شیریں مزاری ،نوید قمر، عمران ظفر لغاری سمیت عبدالوسیم اور صاحبزادہ یعقوب نے اظہار خیال کیا ،بل پر بحث کرتے ہوئے تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ اب بھی اس بل کی 5 سے 6 شقوں پر ہمارے خدشات ہیں ، موجودہ شکل میں سائبر کرائم بل کی حمایت نہیں کریں گے ، سائبرکرائم بل کا مزید جائزہ لیا جائے تاکہ متفقہ طور پر منظور ہو سکے ۔

ایم کیو ایم کے رکن عبدالوسیم نے بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ شکل میں ہم سائبر کرائم بل کو مسترد کرتے ہیں ۔ پی پی کے عمران ظفر لغاری کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم بل سے اظہار رائے ختم ہو جائے گی ، نوجوان ساری رات انٹرنیٹ پر بیٹھ کر ریسرچ کرتے ہیں، سائبر کرائم بل کے ذریعے ہماری سوشل ایکٹویٹی پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔سائبر کرائم پر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ اس بل پر ہماری کچھ ترامیم کو شامل کیا گیا اور آج بھی کچھ شقوں پر اعتراض ہے،اور ہم نے اس پر حکومت سے تعاون بھی کیا ہے۔

ایم کیو ایم کے عبدالوسیم نے کہا کہ سائبر کرائم بل پر کا براہ راست نشانہ نوجوان ہونگے ان میں اس حوالے سے شعور آگہی دی جائے،تمام سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں اور اس پر دوبارہ اصلاح کی ضرورت ہے اور اگر حکومت طاقت کے ذریعے اس بل کو منظور کرنا چاہتی ہے توحکومت کے پاس طاقت ہے،ایم کیو ایم اس بل کو مسترد کرتی ہے۔نعیمہ کشور خان نے کہا کہ اس بل کے منطور ہونے سے سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی کا خاتمہ ہوگا،سینیٹ میں اس بل میں اپوزیشن کی جانب سے ترامیم کی گئیں اور قومی اسمبلی میں اس پر اپوزیشن احتجاج کر رہی ہے،ترکی میں سوشل میڈیا کے ذریعے بغاوت کو کچلا گیا مگر پاکستان میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔

صاحبزادہ یعقب نے کہا کہ یہ بل ضروری ہے اور قانون سازی ہونی چاہیے،مگر اس کے ساتھ ہی اپوزیشن کے اعتراضات پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔آسیہ ناصر نے کہا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے کئی گئر اجڑ گئے ہیں دو سال میں اس بل پر ترامیم کی گئیں۔عمران ظفر لغاری نے کہا کہ سائبر کرائم بل وقت کی ضرورت ہے ایسا لگ رہاہے کہ یہ بل کسی آمر کے دور کا بل ہے اور 10سال سے اوپر کے بچے کی سزا کا بھی تعین کیا گیا ہے،یہ بل کہیں سے لایا گیا ہے اور سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر سب سے زیادہ تنقید ہوئی ہے امریکی صدر پر بھی تنقید ہوئی ہے،میں شریف آدمی ہوں مجھے پی ٹی آئی اور حکومت سمیت ایم کیو ایم کے دوستوں کی پرواہ ہے،نوجوانوں کیلئے کوئی خاص کام نہیں ہے اور نوجوان انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور ساری ریسرچ کرتے ہیں،اس بل سے آزادی اظہار کا تدغن لگایا جارہاہے اگر ملک میں آمریت کے حالات آئے تو یہ بل ہمارے گلے پڑے گا ایسا نہ ہو کہ اس بل کے خلاف ملک کے نوجوان سڑکوں پر آجائیں۔

وزیر مملکت برائے آئی ٹی انوشہ رحمان نے کہا کہ ایک قانون جومشرف 2007میں لائے اور پیپلزپارٹی کی حکومت اسے 2008میں اسی ڈریکولین آرڈیننس کو لے کر آئے، اور دو سال تک موجودہ حکومت اس بل پر قائم کمیٹیوں میں اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ گفتگو کی گئی،2012میں اس پر کام کا آغاز کیا اور 2014 تک یہ بل وزرات کی ویب سائٹ پر موجود رہا کسی نے اس پر آواز نہیں اٹھائی اور نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے وزیراعظم کے توسط سے اس بل کو ایوان میں لایا گیا،کئی مہینوں کی مشاورت اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس بل پر عوامی مطمع نظر سنا گیا اور اس ایوان میں اس بل پر رپورٹ پیش کی گئی،اس بل کے ذریعے توازن پیدا کرنا چاہتے تھے،نام نہاد این جی اوز نے اعتراضات شروع کئے گئے یہ بل حکومت کا بل نہیں بلکہ پارلیمان کا بل اپوزیشن کی ترامیم کے ساتھ بن گیا،قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے بعد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی عوامی نکتہ نظر سنا گیا اور قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں غیر متعلقہ اور غیر ملکی افراد نے بھی شرکت کی۔

سینیٹ میں پی پی کے سینیٹرز نے 18ترامیم کی گئیں اور شاید پیپلزپارٹی کے ارکان سینیٹ اور ارکان اسمبلی میں ہم آہنگی نہیں ہے،قومی اسمبلی کے ممبران نے خود کمیٹی کے اجلاس میں ترامیم کی ہیں اور آج اسی پر اعتراض کر رہے ہیں،ا سمبلی میں تقاریر کے بعد کس نے کہاں سے شاباش حاصل کی گئی باہر سے اس بل پر ڈکٹیشن لی گئی تھی۔سائبر کرائم بل سے خود کشیاں کم ہونگی،این جی اوز یہ چاہتی ہی نہیں کہ پاکستان میں سائبر کرائم بل منظور ہو،تین ترامیم قومی اسمبلی اور 18ترامیم سینیٹ نے دیں اور یہ صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے،پارلیمانی لیڈڑ پی پی نوید قمر نے کہا کہ یہ اس ایوان کے ممبران کا حق ہے وہ کسی بات کی مخالفت کرسکتے ہیں ا ور پارٹی لیڈرز کو اختیار ہے کہ وہ اپنی پارٹی کا موقف بیان کیا ہے۔

شیریں مزاری نے کہاکہ اور بل کے کوئی شقوں پر ہم نے اعتراض اٹھایا تھا۔ اس بل کو آنا چاہیے۔ ہمیں کہیں باہر سے آرڈر نہیں مل رہے ہیں۔علی رضا عابدی نے کہا کہ اس بل پر حکومت اور اپوزیشن دونوں نے محنت کی ۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس قانون کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس بل پر مفاہمت ہوئی ہے،اپوزیشن کی ترامیم کو مانا گیا ہے،اور اس بل میں مثبت اقدامات کیے گئے ہیں،بنیادی حقوق اور آزادی اظہار کے کچھ مسائل ہیں ان کو حل کیا جائے اور اتفاق رائے سے اس بل کو منطور کیا جائے۔