رحمن ملک کا آپریشن ضرب عضب کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلانے کا مطالبہ

جمعرات 11 اگست 2016 16:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔11 اگست ۔2016ء) سابق وفاقی وزیر داخلہ و سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر رحمن ملک نے آپریشن ضرب عضب کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف ایک صوبے کو دہشت گردی کی آڑ میں ٹارگٹ کرنا درست نہیں ‘ پنجاب ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی جہاں جہاں دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے مشتبہ افراد موجود ہیں وہاں آپریشن ہونا چاہیے۔

ایک آدھ سانحے پر قومی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں ۔ پاک فوج نے امن و امان کی بحالی میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ کوئٹہ سانحے کے پیچھے بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے۔ وہ جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ دہشت گردوں کو پکڑنے کے قوانین میں ابھی خامیاں موجود ہیں۔ ان خامیوں کو دور کیا جانا چاہیے۔

کوئٹہ حملہ صرف وکلاء کے خلاف ہیں پورے پاکستان کے خلاف ہے۔ میں نے درجنوں مرتبہ وارننگ دی تھی کہ بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ پاکستان کو نقصان دے گا۔ پہلے سے کہہ رہا ہوں کہ بھارت پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا جو بھارت کو دوست سمجھتے ہیں وہ کل بھوشن یادیو کو کیسے بھول گئے؟ کوئٹہ میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وکلاء کی پوری کھیپ کو شہید کیا گیا ہے۔

اتنے وکلاء تیار کرنے میں برسوں بیت جاتے ہیں۔ حکومت کو کوئٹہ سانحہ پر ملوث ممالک کو بھرپو رجواب دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تمام تر چیخ و پکار کے باوجود بھارت مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہا ہے جس سے لگتا ہے کہ یا تو ہم سو چکے ہیں یا ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی خود سنبھالنے کا فیصلہ درست ہے۔

انہو ں نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے وزارت داخلہ نے اپنی ذمہ داری پوری کی لیکن جب تک بین کی گئی تنظیمیں خصوصاً لشکر جھنگوی کے خلاف کاروائی نہیں ہو گی تب تک یہ معاملات ختم نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ صرف ایک صوبے کو ٹارگٹ کرنا درست نہیں ۔ مشتبہ افراد چاہے پنجاب میں ہوں یا کسی اور صوبے میں کارروائی ہونی چاہیے۔

ملک بھر میں ضرب عضب کی طرز پر آپریشن شروع ہونا چاہیے۔ رحمن ملک نے کہا کہ فوج کے خلاف باتیں کرنا بند کی جائیں۔ جب مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوا تب بھی ایسی باتوں سے عسکری ادارو ں کے حوصلے پست مکتی باہنی کو فائدہ پہنچایا گیا۔ اب بھی بلوچستان میں ”را“ کا نیٹ ورک موجود ہے ایسے بیانات سے ان کو فائدہ پہنچے گا۔ سیاست کرنے کی بجائے سب پاکستان کی سلامتی کو مد نظر رکھیں۔

اسمبلیوں کو بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ایک قومی پالیسی کے تحت افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائے۔ جب تک مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں خطرہ سر پر منڈلاتا رہے گا۔ دہشت گردوں اور دہشت گردی کے پیچھے ملوث غیر ملکیوں کے ساتھ ساتھ ان پاکستانیوں کو بھی پکڑنا چاہیے جو دو ٹکے کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا کر کے خودکش دھماکے کر رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :