ٹیکسٹائل یونٹس کی بیرون ملک منتقلی کی بات درست نہیں ہے ‘ خرم دستگیر خان

جمعرات 11 اگست 2016 16:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔11 اگست ۔2016ء)قومی اسمبلی کوبتایاگیا ہے کہ ٹیکسٹائل یونٹس کی بیرون ملک منتقلی کی بات درست نہیں ہے ‘ ہینڈی کرافٹ سے متعلقہ ایسوسی ایشنز کو فنڈز دینے کیلئے تیار ہیں ‘اراکین تعاون کریں جبکہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے وقفہ سوالات کے دوران وزارت تجارت اور وزارت خارجہ امور کے اعلیٰ افسران کی عدم موجودگی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا عندیہ دیاہے ۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران خرم دستگیر نے کہا کہ ہمارا ہدف غیر قانونی سمگلنگ کی روک تھام اور قانونی برآمدات کے حامل تاجروں کو سہولیات کی فراہمی دینا ہے۔ خرم دستگیر نے بتایا کہ ٹیکسٹائل یونٹس کی بیرون ملک منتقلی کی بات درست نہیں ہے تاہم بعض سرمایہ کار اداروں نے بیرون ملک اپنے یونٹس قائم کئے ہیں تاہم ان کے لئے سرمایہ پاکستان سے نہیں لے جایا گیا۔

(جاری ہے)

تمام انڈسٹریل فیڈر/یونٹس پر لوڈشیڈنگ صفر ہے۔ مارچ 2016ء سے انڈسٹری کو بلا تعطل گیس کی فراہمی جاری ہے۔ اس پر انڈسٹری سے متعلقہ کاروباری لوگوں نے حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ان اقدامات سے برآمدات کے حوالے سے بہتر اعداد و شمار سامنے آنے کی توقع ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران صرف 17 کمپنیوں کو بیرون ملک سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی۔ پرویز ملک کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ عالمی کساد بازاری اور عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی ایک عنصر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پانچ ایسی پراڈکٹس کاٹن کلاتھ کی برآمد میں 1.53 فیصد اضافہ ہوا ہے تاہم اس کی قیمت کو دیکھا جائے تو کمی آئی ہے۔ نیٹ ویئر کی برآمدات میں 15.3 فیصد اضافہ تاہم قیمت میں 1.45 فیصد کمی ہے۔ یہی رجحان بیڈ ویئر ٹاولز میں بھی ہے۔ صرف وویمن گارمنٹس میں 3.81 فیصد برآمدات اور 8.5 فیصد قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہم ویلیو ایڈیشن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

سیلز ٹیکس زیرو کرنے کا ایکسپورٹر کا بڑا مطالبہ منظور کرلیا ہے۔ مشینری کی درآمد پر کوئی ڈیوٹی نہیں۔ وزیر تجارت خرم دستگیر نے بتایا کہ ایک ہنر ایک نگر کے تحت 28 ہزار ہنرمندوں کو تربیت دی گئی ہے۔ہینڈی کرافٹ کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کو 2013-14ء میں 708 ملین ‘ 2014-15 میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ 3.88 تک پہنچی ہیں۔ جرمنی ‘ یو کے‘ آسٹریلیا میں بھی اس میں اضافہ ہوا ہے۔

آنے والے دنوں میں ای کامرس کے آنے سے ہینڈی کرافٹ کے شعبہ میں بہتری آئے گی۔ شہریار آفریدی کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہم نے چاروں صوبوں میں ہینڈی کرافٹ کے اداروں کو فنڈنگ کی ہے۔ اگر کوئی ایسی ایسوسی ایشنز ہیں تو ان کے بارے میں آگاہ کریں۔ ہمارے پاس وسائل ہیں۔ خواتین کو تربیت دینے والی ایسوسی ایشن لے کر ہمارے پاس آئیں۔ حکومت فنڈز فراہم کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ 938 آئٹم پاکستان کی حساس فہرست میں ہیں۔ افغانستان کی 850 اشیاء کی لسٹ ہے۔ پاکستان افغانستان دونوں ساؤتھ ایشیا فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے رکن ہیں۔ 16 اشیاء پر ایم ایف این بنیاد پر محصول کی شرح صفر ہے۔ حساس فہرست ساری سارک ریجن کے ممالک کے ساتھ ہے۔ گزشتہ سال 39 لاکھ ڈالر ہینڈی کرافٹ برآمد کیں۔ امریکہ پہلے‘ جرمنی دوسرے‘ یو کے تیسرے نمبر پر ہے۔

ان ممالک میں کھپت زیادہ ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ نے بتایا کہ وزارت کے زیر انتظام کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے تاہم بیرون ملک چھ پاکستانی ایمبیسی سکولوں کو مالی سال 2015-16ء میں 74 لاکھ روپے امداد دی گئی۔ انجینئر خرم دستگیر نے بتایا کہ وفاقی حکومت خشک دودھ اور گوشت درآمد نہیں کرتی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ارادہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سال 2015-16ء میں فرانس‘ پولینڈ‘ ترکی اور یوکرائن سے 20252 ملین ٹن خشک دودھ اور ملائیشیا‘ بھارت‘ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے 264 ملین ٹن گوشت پاکستان درآمد کیا گیا۔

گوشت کی درآمد کے لئے ایک معیار رکھا گیا ہے۔ ان کو پورا کرنے پر ہی حلال گوشت درآمد کیا جاتا ہے۔وزیر تجارت انجینئر خرم دستگیر نے بتایا کہ 2013-14ء کے دوران کسٹم ڈیوٹی‘ سیلز ٹیکس ‘ ڈبلیو ایچ ٹی ایف ای ڈی کی مد میں 29 ارب 91 کروڑ 14 لاکھ‘ 2014-15ء میں 39 ارب 92 کروڑ 23 لاکھ جبکہ 2015-16ء میں 46 ارب 44 کروڑ روپے سے زائد کی آمدن ہوئی۔ ایوان کو بتایا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے ٹی آئی آر کنونشن 1975ء کی منظوری دی ہے جو جلد ہی آپریشنل ہو جائے گا۔

ٹرانزٹ اور سرحدی تجارت کی توسیع کے لئے ایک دوسرا سنگ میل پراجیکٹ چین پاکستان اقتصادی راہداری ہے۔ اس سے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اس کے علاوہ پاک افغان سرحد پر نووگئی‘ چخ غلنئی ‘ تری منگل‘ بکی‘ خرلاچی‘ شہیدانوں ڈنڈ‘ غلام خان‘ لوارا بویا‘ انگور اڈہ اور خند نارائی کے مقام پر نئے کسٹم سٹیشن کھولے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پاک ایران سرحد پر کٹاگر ‘ چد یخئی‘ ردیخ اور بارڈر پوائنٹ 250 پر نئے کسٹم سٹیشن کھولے گئے ہیں۔

طورخم‘ چمن اور تفتان پر موجود سٹیشنز کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان ریلوے کے کردار کو دوبارہ فعال کیا جارہا ہے جو افغان ٹرانزٹ کاروباری لاگت کو کم کرے گا۔ سرحدی انتظام کو بہتر بنانے اور پاک ایران سرحد کی دونوں اطراف پر غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لئے تفتان کے ممنوعہ کسٹمز علاقہ میں باڑ لگانے اور گیٹ کی تعمیر کا پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے اس کی تکمیل کے لئے 14 اگست 2016ء کی عارضی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔

وزارت خارجہ کی جانب سے انجینئر خرم دستگیر نے بتایا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر پیش رفت جاری ہے۔ ایران پر پابندیاں اٹھائے جانے کی باتیں سن رہے ہیں۔ وزارت خارجہ نے اس بارے میں ایس آر او جاری کیا ہے تاہم بینکنگ ایشو ہے۔ عالمی فنانسنگ ایسے منصوبوں کے لئے تاحال ممکن نہیں ہے تاہم توقع ہے کہ یہ رکاوٹیں جلد دور ہو جائیں گی۔ ایرانی صدر حسن روحانی کے دورہ پاکستان پر اہم معاہدہ پانچ سالہ معاشی منصوبہ تھا۔

اس پر کام ہو رہا ہے۔ سٹیٹ بنک اور مرکزی بنک ایران کے درمیان معاہدہ بھی ہوا تھا جس کے نکات کا اعلان جلد ہوگا۔ بنکوں کے درمیان کام جلد شروع ہوگا۔ اس کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں تعاون پر کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بارڈر مینجمنٹ سے پاکستان کی برآمدات میں 300 فیصد بہتری آئی ہے۔ ہم آنے والے دنوں میں ایران میں روڈ شو کرنے جارہے ہیں۔

وزارت تجارت اور وزارت خارجہ کے اعلیٰ افسران کی عدم موجودگی کا نوٹس لیتے ہوئے سپیکر نے ان وزارتوں کے اعلیٰ حکام کو طلب کرلیا ‘اس صورتحال کا نوٹس لینے کی حکومت کو ہدایت کی۔سپیکر نے وزارت تجارت کے سیکرٹری سے کہا کہ آپ کو کہا تھا کہ اپنی مصروفیت کی وجہ سے ایڈیشنل سیکرٹری کو اجازت دی تھی اگر آپ زیادہ مصروف ہیں اور یہاں نہیں آسکتے تو مجھے بتا دیں میں آپ کے پی اے طور پر ان کو جواب دوں۔

انہوں نے اس کا تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس پر سنجیدہ ہیں اور وزیراعظم کو اس بارے میں لکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے سیکرٹری تجارت سے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اس لئے آپ وقفہ سوالات کے خاتمے تک یہاں بیٹھیں ‘دفتر خارجہ کے سیکرٹری یا سپیشل سیکرٹری کے نہ آنے کا نوٹس لیتے ہوئے سپیکر نے کہا کہ وہ اپنی مصروفیت بتا دیا کریں ہاؤس آپ کی مرضی سے رکھ لیا کریں۔ انہوں نے وزارت خارجہ کے اعلیٰ افسران کی عدم موجودگی میں موجود آفیسر کو نکال دیا اور انہیں ہدایت کی کہ جاکر سیکرٹری یا سپیشل سیکرٹری کو لے آئیں۔