سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے کچھ گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں، سارک کانفرنس میں ظہرانے میں عدم موجودگی کا تاثر غلط ہے، مہمانوں کی پوری عزت افزائی کی ، بھارتیوں کی طرح کسی کا منہ کالا نہیں کیا، گھر میں آکر تضحیک کر نے والوں کیلئے گھگو بن کر نہیں بیٹھ سکتے ،پاکستان کی تضحیک پر جواب دینا میرا فرض تھا ، ہم نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے، بھارتی وزیر داخلہ کو کہوں گا کہ یہ قوم نہ کسی کے تسلط میں رہ سکتی ہے نہ مقبوضہ کشمیر میں جاری آپریشن قابل قبول ہے، ظلم اوردھمکیاں برداشت نہیں ، ایک سیاسی جماعت کو سانپ سونگھ گیا، یہ جماعت چند ہفتے پہلے کشمیری عوام کو بے وقوف بناتی رہی، ، ولن ہیرو نہ بنیں ، آصف زرداری کو میری تعریف کی ضرورت ہے ،ڈھنڈورچیوں کو کیا پتہ ، نیشنل ایکشن پلان کے چار نقاط پر سب سے زیادہ تیزی سے کام ہوا ، ایک ٹولہ ایسا پیدا ہوگیا ہے جو ہر چیز کا الزام مجھ پر ڈالتا ہے ، ایک پارٹی نے تہیہ کرلیا ہے کہ اس نے مجھے ٹارگٹ کرنا ہے، اپوزیشن لیڈر حکومت کے خلاف ہوتے ہیں لیکن وہ میرے خلاف ہیں ، میں نے کبھی نہیں کہ وہ میٹر ریڈر تھا اس مقام تک کیسے پہنچ گیا، عمران سے کہاکہ بلاول کو کنٹینر پر چڑھانے سے پہلے دبئی کے محلات کا پوچھ لینا ، ایک ماہ 10 دن میں 3 کروڑ بارہ لاکھ شناختی کارڈزکی تصدیق ہوچکی، 30 ہزار لوگ ایسے شناخت ہوچکے جو لوگوں کے فیملی ٹری میں نہیں تھے، ، امریکی شہری کو ڈی پورٹ کیا جائے گا

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا پریس کانفرنس سے خطاب

جمعہ 12 اگست 2016 20:22

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔12 اگست ۔2016ء ) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاہے کہ سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے کچھ گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں، سارک کانفرنس میں اپنی طرف سے دیئے گئے ظہرانے میں عدم موجودگی کا تاثر غلط ہے، حکومت پاکستان نے میزبان ملک کی طرح مہمانوں کی پوری عزت افزائی کی ، ہم نے بھارتیوں کی طرح کسی کا منہ کالا نہیں کیا، آپ کے گھر میں کوئی آئے اور آپ کی تضحیک کرکے چلا جائے اور آپ گھگو بن کر بیٹھے رہیں یہ کہاں کا احترام ہے ؟ مہمان کی عزت لازم لیکن پاکستان کی تضحیک پر جواب دینا میرا فرض تھا ، روایت سے ہٹ کر بھارتی وزیر داخلہ کو خصوصی پریزنٹیشن کی اجازت دی،ان کی تقریر میں جو باتیں آئیں تو مجھ پر لازم تھا کہ میں ان کا جواب دیتا،اگر میں نے غلط کہا تھا تو بھارتی وزیر داخلہ اسی ایوان میں جواب دے سکتے تھے،بھارتی وزیر داخلہ نے راجیہ سبھا میں جو کہا وہ یہاں کہتے تو میں ان کا جواب دیتا، ہم نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے، بھارتی وزیر داخلہ کو کہوں گا کہ یہ قوم نہ کسی کے تسلط میں رہ سکتی ہے نہ مقبوضہ کشمیر میں جاری آپریشن قابل قبول ہے، مسائل کا حل مذاکرات میں ہے، آپ کے پاس کوئی اور حل ہے تو ہمیں بتائیں، حملے بھی آپ کرتے ہیں، کشمیریوں کا قتل عام بھی کرتے ہیں، دھمکیاں بھی دیتے ہیں اور مذاکرات کے دروازے بھی بند کرتے ہیں، دنیا دیکھے اور بھارتی میڈیا دیکھے کہ غلطی پر کون ہے ، ایک سیاسی جماعت کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا، یہ وہی جماعت ہے جو چند ہفتے پہلے کشمیری عوام کو بے وقوف بناتی رہی،یہ وہ منافقت ہے جو اس وقت ہماری سیاست پر چھائی ہوئی ہے ، ولن یہاں ہیرو نہ بنیں، ملٹری حکومت کا حصہ ہوتی ہے ، آصف زرداری کو میری تعریف کی ضرورت ہے لیکن ان ڈھنڈورچیوں کو کیا پتہ، نیشنل ایکشن پلان کے چار نقاط پر سب سے زیادہ تیزی سے کام ہوا ، ایک ٹولہ ایسا پیدا ہوگیا ہے جو ہر چیز کا الزام مجھ پر ڈالتا ہے ، ایک پارٹی نے تہیہ کرلیا ہے کہ اس نے مجھے ٹارگٹ کرنا ہے، اپوزیشن لیڈر حکومت کے خلاف ہوتے ہیں لیکن وہ میرے خلاف ہیں ، وہ ذاتیات پر اتر آتے ہیں، میں نے کبھی نہیں کہ وہ میٹر ریڈر تھا اس مقام تک کیسے پہنچ گیا، جو بہت بڑے بنتے ہیں، مجھے پتہ ہے کہ ایل پی جی کا ٹھیکہ کس طرح ریگولرائز کیا گیا ہے، میں نے تو کبھی نام نہیں لیا ، عمران سے کہاکہ بلاول کو کنٹینر پر چڑھانے سے پہلے دبئی کے محلات کا پوچھ لینا ، ایک ماہ 10 دن میں 3 کروڑ بارہ لاکھ شناختی کارڈزکی تصدیق ہوچکی، 30 ہزار لوگ ایسے شناخت ہوچکے جو لوگوں کے فیملی ٹری میں نہیں تھے، غیر متعلقہ افراد کے شناختی کارڈز بلاک کردیئے ہیں، 14 غیر ملکیوں نے خود فون کرکے اپنے شناختی کارڈز اور پاسپورٹ واپس کیے،اندھیر نگری انشااﷲ ختم ہوجائے گی ، امریکی شہری پر 2011 میں گرفتاری کے وقت جاسوسی کے الزامات نہیں تھے، وہ قابل اعتراض سرگرمیوں میں ضرور تھا، جے آئی ٹی ر پورٹ اور عدالتی حکم کی روشنی میں اس امریکی شہری کو ڈی پورٹ کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

وہ جمعہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ انہو ں نے کہا کہ امریکی شہری میتھیو بیرٹ کو بلیک لسٹ ہونے کے باوجود 24 گھنٹے میں ویزہ جاری کیا گیا۔ میتھیو بیرٹ کی جے آئی ٹی رپورٹ مل چکی ہے اس کو 2011ء میں پاکستان سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔ امریکی شہری کو خاص حساس سیکیورٹی علاقے میں موجود ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ اور خارجہ کے پوچھنے پر کہا گیا کہ کمپیوٹر کی غلطی سے ویزہ جاری ہوا۔

انہو ں نے کہاکہ سینیٹر اعظم سواتی نے ایف آئی اے اہلکار کو بطور انعام ایک لاکھ روپے دئیے۔ ان کو ایک لاکھ روپے شکریہ کے ساتھ واپس کر رہا ہوں۔ ایف آئی اے اہلکار کو سرکاری طوپر ایک لاکھ روپے انعام دیا جا چکا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ 3 کروڑ 12 لاکھ شناختی کارڈز کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ شناختی کارڈز کی تصدیق کیلئے 33 لاکھ سے زائد لوگو ں نے از خود ناد را سے رابطہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ 30 ہزار غیر متعلقہ افراد کی فیملی ٹری میں شامل ہوئے۔ چوہدری نثار نے کہاکہ 14 غیر ملکیوں نے خود فون کر کے اپنے شناختی کارڈز اور پاسپورٹس واپس کئے ۔ لوگوں کی شکایت پر 5 ہزار شناختی کارڈز بلاک ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزرائے داخلہ سارک کانفرنس میں میری طرف سے ظہرانہ نہیں عشائیہ تھا۔ میزبان ہونے کی حیثیت سے سارک کے تمام معزز مہمانوں کا مکمل خیال رکھا۔

بھارتی وزیر داخلہ نے بطور مہمان اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ جبکہ ان کی آمد پر پاکستانیوں نے مہذب انداز میں احتجاج کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہاکہ بھارتیوں کی طرح پاکستانیوں نے کسی معزز مہمان کا منہ کالا نہیں کیا۔ غلام علی ‘ نجم سیٹھی‘ شہر یار خان ‘ راحت فتح علی ‘ احمد خورشید قصوری کا کیا قصور تھا جن کو بھارت میں تھریٹ کا نشانہ بنایا گیا۔

بھارت میں معزز پاکستانیوں کو بطور مہمان بلا کر ذلت آمیز سلوک کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستانیوں کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ چوہدری نثار نے کہا کہ دونوں ممالک کے مسائل کا حل صرف مذاکرات میں ہے۔ حملے اور کشمیریوں کا قتل عام بھی آپ کرتے ہیں اور پھر مذاکرات بھی ختم کر دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت حالیہ کشمیر انتخابات میں لوگوں کو بے وقوف بناتی رہی ہے اور مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے جیسے نعرے لگانے والے منافقانہ سیاست بند کریں۔ چوہدری نثار نے کہا کہ میں قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں آصف زرداری ‘ عمران خان ‘ جے یو آئی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کی تعریف کی تھی مگر ان کے ڈھنڈورچی کہتے ہیں کہ آصف زرداری کو میری تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ولن ہیرو بننے کی کوشش نہ کریں۔ بھارتی و زیر داخلہ نے کہاکہ پاکستان سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ کشمیریوں کو گمراہ کرنے والی پارٹی کے منہ سے ان کے خلاف ایک لفظ نہیں نکلا۔ اپوزیشن لیڈر حکومت کے خلاف ہوتے ہیں مگر یہ میرے خلاف ہیں۔ ان ڈھنڈورچیو ں کو کیا پتا کہ آصف زرداری کو میری تعریف کی ضرورت ہے۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ 15 سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے ۔

شناختی کارڈز کی تصدیق پہلے کیوں نہیں کی گئی۔ گھروں کی سکیننگ پہلے کیوں نہیں کی گئی۔ خدا کے کرم سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ جیت رہے ہیں۔ چوہدری نثار نے کہا کہ میں نے کبھی دوسرے صوبوں کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا ۔ یہ پریس کانفرنس اس لئے کی کہ لڑائی جھگڑا ختم ہونا چاہیے۔ میری ذمہ داری ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو بلا جواز تنقید سے بچاؤں۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے پہلے 4 نکات و زارت داخلہ سے متعلق ہیں۔ باقی نکات صوبوں اور دیگر وزارتوں سے متعلق ہیں۔ دشمن پہلے پاکستان میں بیٹھ کر اور اب باہر بیٹھ کر حملے کر رہا ہے۔ دہشت گرد بھاگ رہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ میرا کام انٹیلی جنس شیئرنگ کرنا ہے۔ گزشتہ 2 سال میں 20 ہزار انٹیلی جنس آپریشن کئے گئے ہیں۔ دہشت گرد آسان اہداف کی تلاش میں لگے ہوتے ہیں۔

اب یہ صورتحال ہے کہ فون کالز پر دہشت گرد کہتے ہیں کہ ایک پٹاخہ ہی پھوڑ دو مگر کچھ کرو تو سہی۔ دہشت گرد کمزور ہو چکے ہیں اور ہمیں لڑانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چوہدری نثار نے کہا کہ ایک جماعت نے تہیہ کر لیا ہے کہ انہوں نے مجھے ٹارگٹ کرنا ہے۔ لڑائی ختم ہونی چاہیے اور روزانہ ادہر ادھر سے بیانات آ رہے ہوتے ہیں۔ ایک ٹولہ کسی بھی واقعہ کے بعد سیکیورٹی اداروں پر تنقید کرتا ہے۔

کچھ لوگ چھپے ہوتے ہیں سامنے نہیں آتے اور ان کو بھارت کے مفادات بہت عزیز ہیں۔ بھارتی مفاد کا دفاع یہی ٹولہ کرتا ہے مگر تنقید برداشت نہیں کرتا۔ میں نے کبھی نہیں کہا کہ ایک میٹر ریڈر اس مقام پر کیسے پہنچا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہاکہ ایل پی جی کا کوٹہ اپنے نام کس طرح کرایا گیا میں نے کبھی نہیں ذکر کیا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ میری ریلی کرپشن کے خلاف ہے۔

سرے محل اور سوئس بنکوں میں رکھا گیا پیسہ کہاں سے آیا۔ الزام نہیں لگاتا صرف اتنا کہتا ہوں کہ قوم سے منافقت نہ کی جائے۔ ہمیشہ کہتا ہوں کہ پاکستان میں کرپشن کے خلاف کوئی سنجیدہ نہیں ہے۔ چوہدری نثار نے کہا کہ دونوں افراد سے کہتا ہوں کہ وہ بیان بازی سے ہٹ جائیں۔ میری ذات سے متعلق بات کرنی ہے تو آئیں میڈیا کو استعمال کرتے ہیں ۔ صحافیوں اور ریٹائرڈ ججوں کا ایک کمیشن بنا لیں جو فیصلہ کرے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔

چوہدری نثار نے کہا کہ عمران خان کرپشن کے خلاف تحریک میں پپلوں کو شامل کرنے سے پہلے سرے محل کا ضرور پوچھ لیں۔ ہیروں کے ہارے کا کیا بنا اور اس کے پاس ہے۔ اسمبلی میں اپوزیشن نے وزیر اعظم کو دکھانے کیلئے ساتھ ملایا۔ پیپلز پارٹی نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر حکومت کا ساتھ دینے کے لئے 2 شرائط رکھیں ایک ایان علی کا کیس واپس لیں اور دوسرا ڈاکٹر عاصم کی ضمانت ہونے دیں۔

اگر ایسا ہو جائے تو پیپلز پارٹی کی حکومت سے صلح ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایان علی 5 کروڑ روپے لے جاتے ہوئے پکڑی گئی۔ اس لڑکی کا دفاع وہ کر رہا ہے جو سب سے زیادہ میرے خلاف بولتا ہے۔ وہ غریب آدمی کا کیس لڑنے کیلئے تواس کی کھال ادھیڑ دیتا ہے مگر ایان علی کا کیس مفت لڑ رہا ہے۔ بلاول اور ایان علی کے ایئر ٹکٹ ایک ہی اکاؤنٹ سے جاتے ہیں۔ چوہدری نثار نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی ڈیمانڈ پر میں نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کا کیس نیب کے پاس ہے اور پراسیکیوٹر آپ کے دور کا لگا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں بات چیت مذاکرات کسی بھی قسم کی بحث اور آپ سے تعاون کیلئے تیار ہوں مگر میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف یہ الزامات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔