افغان مہاجرین وطن واپسی کے بجائے یورپ جانے کے خواہمشند

ہفتہ 13 اگست 2016 13:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔13 اگست۔2016ء) تین دہایئوں سے پاکستان کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر تعلیم یافتہ افغان مہاجرین میں سے زیادہ تر اب اپنے تباہ حال ملک واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اب ان کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح یورپی ممالک پہنچ جائیں۔معاش اور بہتر سہولیات کی تلاش میں بالخصوص افغان مہاجرین کی نئی نسل یورپی ممالک کی جانب دیکھ رہی ہے جبکہ ایک نئے براعظم تک پہنچنے اور وہاں روزگار کے حصول کے لیے یہ افغان مہاجرین زندگی کی بازی بھی داوٴ پر لگانے سے گریز نہیں کر رہے۔

پاکستان میں رہائش پذیر افغان مہاجرین نے اسلام آباد حکومت اور اقوام متحدہ کی موجودہ پالیس کے خلاف پانچ اگست کو احتجاج کیا۔ اس مظاہرے میں افغان مہاجرین کے متعدد رہنماوٴں اور بعض سیاسی شخصیات نے بھی حصہ لیا۔

(جاری ہے)

افغان مہاجرین کے لیے تعلیمی دروازے بھی بند ہوتے ہوئیصوبہ خیبر پختونخوا میں افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل تیز ہونے کے ساتھ ان کے بچوں کے لیے بنائے گئے تعلیمی ادارے بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔

افغان مہاجر کیمپوں میں قائم اسکولوں کو بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔جرمن شہر میونخ کے حالیہ حملے کے دوران دو سو افراد کی جان بچانے والے ایک افغان گارڈ نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ اس حملے کے دوران خود اْس کی کیفیت کیا تھی اور کیسے وہ اپنے نئے ملک کے لیے کچھ کرنے کا متمنی تھا۔چانسلر انگیلا میرکل نے جرمنی میں حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد اپنی حکومت کی ’مہاجر دوست‘ پالیسی تبدیل کرنے کے مطالبات کو سختی سے رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگوں اور تشدد سے بھاگنے والوں کو جرمنی میں پناہ دی جائے گیپاکستان میں پشاور، اسلام آباد اور ملک کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر تعلیم یافتہ افغان نوجوان جنگ زدہ افغانستان واپسی کے بجائے مغربی ممالک جانے کے لیے کوشاں ہیں۔

تین دہائیوں سے جنگ اور خانہ جنگی کے شکار ملک افغانستان سے ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے مغربی ممالک بالخصوص جرمنی، فرانس، بلجیم، یونان اور ترکی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرا چکی ہے۔ ان میں ایک بڑی تعداد غیر قانونی راستوں سے ہوتے ہوئے ان ممالک پہنچی ہے، جہاں وہ سیاسی پناہ لینے کی کوشش میں ہیں۔پشاور کے علاقے حیات آباد میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر ہیں۔ یہاں ایسے افغان مہاجرین کی تعداد زیادہ ہے، جن کے رشتے دار مغربی ممالک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔یورپ میں موجود ان مہاجرین کے رشتے دار انہیں ماہانہ خطیر رقوم ارسال کرتے، جس کی وجہ سے یہ افغان مہاجرین پشاور کے پوش علاقوں میں رہنے کے قابل ہوئے ہیں۔۔

متعلقہ عنوان :