حکومتی ایجنسیوں اور اداروں کے پاس ملک کے 7 کروڑ عوام کا کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور ریونیو کے اجلاس میں انکشاف

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 17 اگست 2016 19:57

حکومتی ایجنسیوں اور اداروں کے پاس ملک کے 7 کروڑ عوام کا کوئی ریکارڈ ..

اسلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 17اگست۔2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور ریونیو کو بتایا گیا ہے کہ حکومتی ایجنسیوں اور اداروں کے پاس ملک کے 7 کروڑ عوام کا کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور ریونیو کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا۔چیف شماریات آصف باجوہ نے کمیٹی کو ملک میں مردم شماری کے انعقاد سے متعلق اقدامات کے حوالے سے بریفنگ کے دوران انکشاف کیا کہ ملک کی 19 کروڑ 60 لاکھ آبادی میں سے 7 کروڑ کا پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس (پی بی ایس) اور نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ 7 کروڑ لوگ کیا کرتے ہیں، کہاں رہتے ہیں اور ان کا ذریعہ معاش کیا ہے اس حوالے سے ہمیں کچھ معلوم نہیں۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں آبادی کے تعین کے لیے مردم شماری ضروری ہے اور لوگوں سے متعلق معلومات مردم شماری کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہیں، جبکہ ملک میں مہاجرین کی تعداد کے تعین کے لیے بھی مردم شماری ناگزیر ہے۔آصف باجوہ نے کہا کہ مردم شماری کرانے کے لیے پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تیاری مکمل ہے اور مردم شماری کرانے کا مصمم ارادہ بھی ہے، تاہم دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی وجہ سے پاک فوج کی عدم دستیابی کے باعث تاحال مردم شماری کا انعقاد ممکن نہیں ہوسکا۔

انہوں نے بتایا کہ مردم شماری کرانے کے لیے ایک لاکھ 66 ہزار شمار کنندہ کی ضرورت ہے، جبکہ یہ کام فوج کے بغیر ممکن نہیں اور نہ ہی فوج کے بغیر مردم شماری کرانے کا کوئی متبادل پلان موجود ہے۔کمیٹی اراکین نے مردم شماری میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو تجویز دی کہ وہ اس کے لیے کوئی متبادل پلان تیار کرے۔واضح رہے کہ حکومت نے رواں سال مارچ میں ملک میں مردم شماری کا فیصلہ کیا تھا، تاہم سیکیورٹی کے لیے مسلح افواج کے اہلکاروں کی عدم دستیابی کے باعث صوبوں کی مشاورت سے مردم شماری موخر کردی گئی۔

حکومت کا کہنا ہے کہ مردم شماری اب رواں سال نومبر یا آئندہ سال مارچ میں ممکن ہے، لیکن اس کا حتمی اعلان مسلح افواج کے اہلکاروں کی دستیابی سے مشروط ہے۔اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت پر جان بوجھ کر مردم شماری میں تاخیر کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔گزشتہ ماہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے ملک میں مردم شماری میں تاخیر پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل سے جواب طلب کیا تھا کہ کن وجوہات اور حالات کی وجہ سے حکومت نے مردم شماری موخر کی۔

متعلقہ عنوان :