حکومت نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طورپر فوکس کیے ہوئے ہے٬ضرب عضب میں کامیابی کی شرح 95فیصد ہے‘ رانا تنویر حسین

آج کے پاکستان میں اور 2013ء کے پاکستان میں بہت فرق ہے ٬ دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں طورپر کمی آئی ہے ابھی بھی سب اچھا نہیں ہے ٬مزید بہتری کی ضرورت ہے ٬ہم ایک محفوظ پاکستان کی طرف جا رہے ہیں ‘ وفاقی وزیر دفاعی پیداوار اب حالات پہلے سے کہیں بہتر ہیں ٬ سال 2013ء میں کسی دہشتگرد تنظیم کا نام تک نہیں لیا جا تا تھا لیکن اب سرعام مذمت کی جا تی ہے‘ مصدق ملک پہلے دہشتگردوں کیلئے گڈ اور بیڈ کی بحث تھی لیکن اب صرف بیڈ کی اصطلاح ہے ٬ کیا یہ تبدیلی نہیں ہے ٬حکومت نیشنل ایکشن پلان کے 20نکات پر عملدرآمد کے حوالے سے بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ‘ ترجمان وزیر اعظم پاکستان جرنلسٹ فائونڈیشن او رورلڈ کالمسٹ کونسل کے زیر اہتمام ’’نیشنل ایکشن پلان ٬ اہداف ٬ مشکلات اور اجتماعی ذمہ داری ‘‘کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی ٬ سلیم بخاری ٬ سلمان غنی ٬ذوالفقار راحت٬ سردار آصف احمد علی ٬سابق ہیڈ نیکٹا خواجہ خالد فاروق و دیگر کا خطاب

اتوار 16 اکتوبر 2016 21:20

@لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اکتوبر2016ء) وفاقی وزیر دفاعی پیداوار٬ سائنس وٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طورپر فوکس کیے ہوئے ہے٬ضرب عضب میں کامیابی کی شرح 95فیصد ہے٬اس کے ذریعے دہشتگردی کے واقعات میں نمائیاں کمی آئی ہے جبکہ وزیر اعظم کے ترجمان مصدق حسین ملک نے کہا کہ اب حالات پہلے سے کہیں بہتر ہیں ٬ سال 2013ء میں کسی دہشتگرد تنظیم کا نام تک نہیں لیا جا تا تھا لیکن اب سرعام مذمت کی جا تی ہے٬فوج کا سیا ستدانوں سے ٹکرائو نہ کرایا جائے ٬ فو ج کی ہرکامیابی ہماری کامیابی ہے ٬ فو ج سے ٹکرائو نہیں بلکہ انہیں سلیوٹ کرنا چاہیے۔

ان خیالات کا اظہا رانہوں نے پاکستان جرنلسٹ فائونڈیشن او رورلڈ کالمسٹ کونسل کے زیر اہتمام ’’نیشنل ایکشن پلان ٬ اہداف ٬ مشکلات اور اجتماعی ذمہ داری ‘‘کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کے دوران کیا ۔

(جاری ہے)

اس موقع پرسینئر صحافی مجیب الرحمن شامی ٬ سلیم بخاری ٬ سلمان غنی ٬ذوالفقار راحت٬ سابق ہیڈ نیکٹا خواجہ خالد فاروق ٬ مولانا راغب حسین نعیمی ٬ حافظ شفیق الرحمن٬ ڈاکٹر اشرف چوہان ٬شاہد قادر٬ پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ ٬ سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی ٬ جنرل (ر)غلام مصطفی٬ جبران نا صر اور دیگر بھی مو جو دتھے ۔

وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ سال 2013ء میں جب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس حکومت سنبھالی تو ہمیں تین بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جس میں دہشتگردی ٬ توانائی کا بحران اور معاشی بدحالی شامل تھے۔ تین سال کے قلیل عرصے میں اتنے بڑے مسائل پر قابو پانا ناممکن تھا لیکن اللہ کے فضل سے تینوں پر ہی تیز رفتاری سے کام ہور ہا ہے اور بہت سی کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں ٬ گزشتہ تین سالوں میں وزیر اعظم محمد نواز شریف نے دہشتگردی کے معاملے پر جتنے اجلاس کیے ہیں شاید ہی کسی وزیر اعظم نے کیے ہوں گے ۔

آج کے پاکستان میں اور 2013ء کے پاکستان میں بہت فرق ہے ٬ دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں طورپر کمی آئی ہے ۔این جی اوز کی رجسٹریشن اور فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے حوالے سے بھی بہت زیا دہ کام ہوا ہے ٬مدرسوں کو ریگولیٹ کرنے پر بہت کا م ہوا ہے٬کچھ ایسے مافیاز بن چکے ہیں جن کے خلاف حکومت پر عزم ہے ۔ضرب عضب میں کامیابی کی شرح 95فیصد ہے ٬ کر اچی میں آپریشن کامیاب ہوا ٬ بلوچستان کے حالات بھی اب بہت بہتر ہیں ٬ انٹیلی جنس اداروں کی باہمی ہم آہنگی میں بہت زیا دہ بہتری ہوئی ہے اور اب وہ مل جل کر کا م کر تے ہیں ٬ نیشنل ایکشن پلان کے اجلاس باقاعدگی سے ہو تے ہیں ٬مو جودہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طورپر فوکس کیے ہوئے ہے٬لیکن سب اچھا نہیں ہے ٬ابھی مزید بہتری کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان جس طرح کے محل وقو ع میں واقع ہے کہ جہاں اس کے ایک طرف بھارت ٬ دوسری طرف افغانستان اور تیسری طرف ایران لگتا ہے ٬ اگر دنیا کے کسی بھی او رملک کی یہ حالت ہو تی تو وہ اتنے کم وقت میں اتنے بڑے اہداف حاصل نہ کر سکتا۔ دہشتگردی امریکہ ٬ سعودی عرب اور ترکی میں بھی ہے ٬ یہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے ٬ ہم ایک محفوظ پاکستان کی طرف جا رہے ہیں ٬ ہم میں سے ہر ایک کو مجموعی اور انفرادی طورپر اپنی ذمہ دارای اداکرنی چاہیے ٬ اگر نظام کو ٹھیک کر لیا جائے تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے ۔

ترجمان وزیر اعظم مصدق ملک نے کہا ہے کہ اب حالات پہلے سے کہیں بہتر ہیں ٬ سال 2013ء میں کسی دہشتگرد تنظیم کا نام تک نہیں لیا جا تا تھا لیکن اب سرعام مذمت کی جا تی ہے ٬ پہلے دہشتگردوں کیلئے گڈ اور بیڈ کی بحث تھی لیکن اب صرف بیڈ کی اصطلاح ہے ٬ کیا یہ تبدیلی نہیں ہے یہ درست ہے کہ راستہ بہت لمبا ہے ٬ دہشتگردی کے واقعات ہوتے ہیں تو دکھ ہمیں بھی ہوتا ہے ٬ حکومت کا بھی دل ہو تا ہے لیکن اتنی جلدی تمام مسائل حل نہیں ہوجاتے بلکہ ان کے حل ہونے میں وقت لگتا ہے٬حکومت نیشنل ایکشن پلان کے 20نکات پر عملدرآمد کے حوالے سے بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ٬ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے عملدرآمدگی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو کہ صوبوں اور وفاق کی سطح پر کا م کر رہی ہے ٬ سال 2013ء میں دہشتگردی کے 2ہزار واقعات ہوئے اور سال 2016ء میں 300واقعات ہوئے ٬ کیا ابھی بھی تبدیلی نہیں آئی صرف رواں ایک سال میں 411خطرناک دہشتگردوں کو پھانسی پر چڑھایا جا چکا ہے جس میں کہ گزشتہ دس سال سے مسلسل تاخیر کی جا رہی تھی ٬ 22لاکھ لو گوں کو دہشتگردی کے مختلف واقعات میں شامل تفتیش کیا جا چکا ہے ٬ ساڑھے تین ہزار سے پانچ ہزار لو گ لائوڈ سپیکر پرنفرت انگیز تقریروں کیوجہ زیرحراست ہیں ٬ 40ہزارپاسپورٹ منسوخ کیے گئے٬ فوج کا سیا ستدانوں سے ٹکرائو نہ کروایا جائے ٬ فو ج کی ہرکامیابی ہماری کامیابی ہے ٬ فو ج سے ٹکرائو نہیں بلکہ انہیں سلیوٹ کرنا چاہیے۔

سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ اصل میں ہمارے سب لوگوں کی اپنی جیبوں میں اپنے اپنے ملزم ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں نظر ڈالیں ٬ جو ماضی ہمارا ہے اس کی ضرورت نہیں ٬مسئلہ آگے بڑھنا کا ہے۔ جہاد افغان کو ہمارے سمیت پوری دنیا سپورٹ کرنے والی تھی۔کردار ادا کیا نقصان اٹھایا فائدے بھی ہوئے۔ پھر کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوا کشمیر میں جہادی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔

9/11 کے بعد دنیا تبدیل ہو گئی۔ اس وقت جہاں آج ہم کھڑے ہیں ہمیں فیصلہ کرنا ہے ٬جو بندوق کے ذریعے ہم پر فیصلے مسلط کرنا چاہتے ہیں ہمیں اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے ٬ان کی سرکوبی کرنی چاہیے۔ کوئی آمدن اس ملک میں ایسی نہیں ہونی چاہیے جس کا حساب نہ ہو۔ پیسہ جہاں سے بھی آ رہا ہے اس کا حساب ہونا چاہیے۔ کسی طبقے کو ڈھیل دیں گے تو اس کے نقصانات ہوں گے۔

پھر نیشنل ایکشن پلان کیا بنائیں گے ٬ دہشت گردوں سے کیسے لڑیں گے ٬ معاشی اصلاحات کیسے کریں گے ۔ ایک اخبار کی رپورٹ پورا ملک حالات ہلا دیتی ہے۔ اگر کسی نے کوئی جرم کیا تو اس کو سزا ملنی چاہیے ٬یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ جب جب پاکستان کا علاج کیا گیا فتنے بڑھے ہیں۔ یہ وقت اپنے اپنے گریبانوں کو ٹٹولنے کا ہے دوسروں کے نہیں۔ سارے اداروں کو سن لینا چاہیے انہیں قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہے اگر نہ کیا گیا تو پھر کچھ نہیں کہہ سکتا کہ نتیجہ کیا نکلے گا۔

سینئر صحافی سلیم بخاری نے کہا کہ آرمی سکول پر جب حملہ ہوا نیشنل ایکشن پلان تب ہی کیوں بنا پہلے کیوں نہیں بنا۔ جس چیز کے پیچھے مقصد نہ ہو اس کا حل نہیں نکلتا۔فوجی عدالتوں کے قیام پر کیا ہوا۔1992 میں ایم کیو ایم کے خلاف جو آپریشن شروع ہوا اس کو پورا کر دیا جاتا تو آج کراچی آپریشن کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جن چیزوں کو ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے وہ ناسور بن جاتے ہیں۔

سلمان غنی نے کہا کہ آج کی یہ محفل اہم بھی ہے حساس بھی اور قوم کے دل کی آواز بھی۔ آج کی اس نشست میں ہمیں جائزہ لینا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی تھی۔ آرمی پبلک سکول کا واقعہ جس میں قوم کے بچوں کو دہشت گردوں نے ٹارگٹ کیا اور کراچی کے لے کر خیبر تک ایک سکتے کی کیفیت تھی۔ حکومتی ذمہ داران نے سر جوڑ کر شدت پسندی اور دہشت گردی کے جن کو قابو کرنے کیلئے ایک پلان بنایا۔

اگر جائزہ لیا جائے تو اس پلان پر عملدرآمد کی صورت میں ہم کم از کم اس جن کو قابو کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ خواجہ خالد فاروق نے کہا کہ وعدے کئے گئے نیکٹا کو فعال کیا جائے گا لیکن اس کی ایک بھی میٹنگ نہیں ہوئی۔ نیشنل انٹرنل سکیورٹی میں کچھ انٹرنل خامیاں ہیں۔ نیکٹا ابھی تک فعال نہیں ہے سب سے اہم ادارہ نیشنل انٹرنل سکیورٹی آرگنائزیشن کے تحت جس نے تھریٹ اسسمنٹ کرنی تھی وہ بھی ابھی تک نہیں بنا۔

دنیا میں کوئی بھی سویلین نہیں چاہے گا کہ فوج سویلین کا کردار ادا کرے۔ ہمارا سسٹم جو چل رہا ہے اس میں خرابیاں ہیں۔ہمیں ان اداروں کو مضبوط کرنا ہو گا ان میں فنڈنگ ہونی چاہیے۔ پوری قوم کو متحد کر کے ملک پاکستان کو محفوظ کرنا ہو گا۔ کریمنل جسٹس کے حوالے سے پولیس اورسویلین حکومت کو چاہیے کہ جسٹس سسٹم میں بہتری لائیں۔ نیشنل ایکشن پلان اور نیشنل انٹرنل سکیورٹی پر جب بھی پلان بنے سب سٹیک ہولڈرز کو کھل کر بات کرنی چاہیے کوئی نو گو ایریا نہیں ہے۔

ذوالفقار احمد راحت نے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ یقینا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ پاکستان جرنلسٹ فائونڈیشن نے اس طرح کا سیمینار میں لوگوں کو اکٹھا کیا اس کا مقصد کیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ نیشنل ایکشن پلان پاکستان کی بقا ء اور سلامتی کا ضامن ہے ۔بدقسمتی دیکھئے کہ 13 چودہ سال تک ہم یہ سوچتے رہے اور اس جنگ کو جیتنے کی کوشش کرتے رہے اور اس بحث میں پڑے گئے کہ یہ جنگ ہماری ہے بھی کہ نہیں٬13سال بعد یہ معاملہ حل ہوااورنیشنل ایکشن پلان سامنے آیا ۔

حالانکہ56 ہزار لاشوں پر کھڑے ہو کر ہم یہ کہتے رہے کہ یہ امریکہ کی جنگ ہے پھر اے پی ایس کے معصوم بچوں نے اپنی جانوں پیش کر کے اس قوم کی عسکری لیڈر شپ اس قوم کے بڑوں کو سر جھوڑ کر اکٹھا بیٹھنے پر مجبور کر دیا پھر قوم اکٹھاہو گئی پھر نیشنل ایکشن پلان سامنے آیا۔ نیشنل ایکشن پلان ایک ایسا ڈاکو منٹ ہے جو ریاست پاکستان کی بقاء کی ضمانت ہے جو پوری دنیا کے اندر ایک پر امن پاکستان کو آگے بڑھانے کی ضمانت ہے۔

سردار آصف احمد علی نے کہا کہ ہم سب ہی محسوس کر رہے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہو رہا ہے میں یہ سمجھتا ہوں کے نیشنل ایکشن پلان نا مکمل ایجنڈا ہے۔ ہم اس ملک کے بارے میںپریشان اورفکر مند ہیں ۔نیشنل سکیورٹی کوئی الگ تھلگ چیز نہیں ہوتی اس کا تعلق اندرونی سکیورٹی سے ہوتا ہے ٬خارجہ پالیسی سے ہوتا ہے ٬معیشت سے ہوتا ہے۔ جو مہربان پاکستان کے سربراہ بنے پہلے ضیاء الحق نے ہمیں ایک جنگ میں پھنسا دیا۔

جو ہم کر رہے ہیں وہ دوسروں کو خوش کرنے کیلئے ہے ۔پاکستان میں دہشت گردی کون کروا رہے ہیں کیوں ہم ان کے سرپرستوں کا نام نہیں لیتے ۔جب تک آپ سچ کو سچ نہیں کہیں گے تب تک آپ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں کر سکتے۔ نیشنل ایکشن پلان کے بہت اچھے نتائج نکلے ہیں ٬کراچی میں امن ہوا ہے جو آئے روز بم دھماکے ہوتے تھے اس میں کافی حد تک کمی ہوئی ہے ۔پاکستان آرمی ٬ فضائیہ اور بری صرف یہی جنگ لڑ رہے ہیں کیا چاروں صوبائی حکومتیں بھی حصہ دار ہیں۔

متعلقہ عنوان :