اختیارات سے تجاوز٬بد دیانتی کے الزامات

جسٹس شوکت صدیقی کیخلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج نے گھر کی تزئین و آرائش پر سی ڈی اے سی1 کروڑ20لاکھ خرچ کروائے٬ سی ڈی اے کے سابق آفیسر علی انور گوپانگ کاجوڈیشل کونسل میں ریفرنس تحریک انصاف کے وکلاء پینل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی قانونی حیثیت چیلنج کرنے کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر٬ اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر طارق جہانگیری کا زیر سماعت ریفرنسوں کی حتمی سماعت کا مطالبہ

جمعرات 27 اکتوبر 2016 19:39

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 اکتوبر2016ء) پاکستان تحریک انصاف کے 2نومبر کو ہونیوالا دھرنا روکنے کے لئے دو صفحاتی عدالتی آرڈر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک ایسے فاضل جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دیا ہے جنکے خلاف اختیارات سے تجاوز اور بد دیانتی کے الزامات پر مبنی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہے۔ تحریک انصاف کے وکلاء پینل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے گزشتہ روز دھرنا روکنے سے متعلق سنائے گئے حکم میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو یکسر نظر انداز کیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں سی ڈی اے کے ایک سابق آفیسر علی انور گوپانگ نے ریفرنس دائر کر رکھا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ذریعے پہلے سرکاری رہائش الاٹ کروائی اور پھر اسکو ناپسندیدہ قرار دیکر ایک دوسری سرکاری کوٹھی الاٹ کروائی یہ کوٹھی پہلے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز کے زیر استعمال تھی۔

(جاری ہے)

ریفرنس میں دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ الزام لگایا گیا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے نہ صرف یہ گھر سیاسی تعلقات کی بنا پر الاٹ کروایا اور پھر اس گھر کی تزئین و آرائش پر سی ڈی اے سے ایک کروڑ20لاکھ روپے بھی خرچ کروائے حالانکہ یہ سرکاری کوٹھی پی ڈبلیو ڈی کے پول پر تھی اور اسکی تزئین و آرائش بھی اسی کے ذمہ تھی لیکن چونکہ سی ڈی اے کے کئی افسران کیخلاف جسٹس شوکت عزیز صدیقی مختلف کیسوں کی سماعت کر رہے تھے اس لئے فاضل جج کے حکم پر پی ڈبلیو ڈی حکام نے اس بات پر رضا مندی ظاہر کر دی کہ اگر سی ڈی اے اس سرکاری گھر پر اخراجات کرے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

فاضل جج نے سی ڈی اے کے اخراجات پر اس سرکاری گھر پر کبوتروں کا پنجرہ بھی بنوایا کیونکہ وہ فارغ اوقات میں کبوتر بازی کا شغل بھی فرماتے ہیں۔ علی انور گوپانگ کی طرف سے دائر ریفرنس میں یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سی ڈی اے کے ایک افسر کے بیٹے اور بہو کو بھی اپنے اثر رسوخ کے ذریعے نوکری دلوائی اور اسی سرکاری افسر کو عدالتی احکامات کے ذریعے اڑھائی کروڑ روپے مالیت کے پلاٹ کی بجائی5کروڑروپے مالیت کا پلاٹ دینے کے لئے سی ڈی اے حکام کو مجبور کیا گیا ۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیخلاف اس ریفرنس کی سماعت مئی2016ء میں ہوئی تھی اور اس سلسلے میں انہیں شوکاز نوٹس بھی جاری ہوا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی کیخلاف بھی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہے۔ چیف جسٹس انور کاسی پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔

اور سپریم کورٹ نے ان بھرتیوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ تین روز پہلے سپریم کورٹ کے جسٹس اقبال حمید الرحمن نے اسی بنا پر استعفیٰ دیا تھا کیونکہ ان بھرتیوں کے وقت وہ ہائیکورٹ کے جج تھے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء مسلسل سپریم کورٹ پر زور دے رہے ہیں کہ جن ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہیں انکے فیصلے کئے جائیں اس سلسلے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر محترمہ عاصمہ جہانگیر اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر طارق جہانگیری تمام زیر سماعت ریفرنسوں کی حتمی سماعت کا مطالبہ کر چکے ہیں ۔

تحریک انصاف کے وکلاء پینل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے دیئے گئے احکامات بارے تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی قیادت اور وکلاء پینل اس بات سے متفق دکھائی دیتے ہیں کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مستقبل میں اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے یہ متنازعہ فیصلہ سنایا ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ بیرسٹر ظفر اللہ کیس میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے لیکن ہائی کورٹ کے ریفرنس کی زد میں آئے ہوئے ایک جج نے کیسے عدالت عظمیٰ فیصلہ نظر انداز کر دیا۔ تحریک انصاف کے وکلاء یہ سوال ہر فورم پر اٹھانے کے لئے تیاری کر رہے ہیں۔۔( علی)