بھارتی کوششوں کے باوجود دریاجہلم کا پانی نہیں رک سکتا٬ سیکرٹری پانی و بجلی

پیر 7 نومبر 2016 16:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 نومبر2016ء) سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگہ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کو آگاہ کیا ہے کہ بھارت کی کوششوں کے باوجوددریا جہلم کا پانی نہیں رک سکتا ٬کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے عالمی فورمز نے ہمارے پوائنٹس بھی تسلیم کئے ہیں٬ بھارتی وزیر اعظم نے سندھ طاس معاہدہ تو ڑنے کی دھمکی دی نوٹس نہیں بھیجا٬ اس ضمن میں مذاکرات جاری ہیں٬بھارت نے سیکرٹری پانی و بجلی کو اسلام آباد بھجنے کی یقین دہانی کروائی ہے٬معاہدہ کے تحت بھارت کو فائدہ ہے اگر توڑا گیا تو زیادہ نقصان اسی کا ہو گا٬اگر بھارت جارحیت پر اتر آیا تو اس کے اور بھی حل ہیں٬2016 سے نیشنل واٹر پالیسی پر کام شروع کر دیا گیا ہے٬اگلے ایک سے دو ماہ میں اس پالیسی پر صوبوں سے سیر حاصل مشاورت کریں گے٬مشاورت کے بعدواٹر پالیسی کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا٬سینیٹر شیریں رحمان نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزیوں کی دھمکیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہبھارت نے بھگلیار اور کشن گنگا ڈیم بنا ئے تو ہم سوئے رہے٬ثالثی کے فورمز نے بھی پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی ٬بھارت ڈیم پر ڈیم بنائے جا رہا ہے ہمیں خاموش نہیں ہونا چاہیے ٬اگر بھارت سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پاکستان 1960 کے معاہدے کے تحت عالمی فورم سے رجوع کر سکتا٬ کمیٹی نے نے بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکیوں اور معاہدے سے متعلق معاملات کا جائزہ لینے کیلئے ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی۔

(جاری ہے)

پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کا اجلاس سینیٹر غوث محمد خان نیازی کی صدارت میں منعقد ہوا۔جس میں سینیٹر شیریں رحمان کے ایوان بالا میں سندھ طاس منصوبے کے تحریک التواء ٬واپڈا میں پچھلے ایک برس سے کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز ملازمین کی بھرتیوں ٬ضلع مالا کنڈ میں خادو٬بٹ خیلہ٬گرڈ سٹیشن 220کلو واٹ کے چک درہ گرڈ اسٹیشن اور پچھلے چھ ماہ میں پیسکو میں وصولیوں اور نقصانات کا ایجنڈا زیر بحث آیا۔

اجلاس میں سینیٹرز نثار محمد ٬دائود خان اچکزئی ٬عطاء الرحمن ٬غوث محمد خان نیازی٬ظفر اللہ خان دھاندلا ٬احمد حسن٬نعمان وزیر خٹک٬وفاقی سیکرٹری پانی بجلی محمد یونس دھاگہ٬چیئرمین واپڈا میجر جنرل (ر) مزمل٬چیف پیسکو انوار الحق کے علاوہ اعلی افسران نے شرکت کی۔کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ واپڈا میں کل 584بھرتیاں کی گئیں جن میں 516کنٹریکٹ اور68ڈیلی ویجز ہیں۔

واپڈا 3ارب سالانہ پنشنرز کو ادائیگیاں کرتا ہے بھرتیاں نہ ہونے کی وجہ سے 23فیصد افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے۔واپڈا ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت قائم کیا گیا خودمختار اتھارٹی کے طور پر کام کرتے ہیں۔خالی آسامیوں پر ہونے والے اس ماہ کے ٹیسٹ این ٹی ایس کی بجائے واپڈا خود لے گا۔چیئرمین واپڈا میجر جنرل (ر)مزمل نے آگاہ کیا کہ این ٹی ایس کے نتائج غیر تسلی بخش ہوتے ہیں واپڈا میں بھرتی کمیٹیاں موجود ہیں اور ہر قسم کے گریڈ کی بھرتی کیلئے ماہرین بھی ہیں۔

سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ واپڈا کی اتھارٹی ٬خود مختار ادارے اور وفاقی وزارت پانی بجلی کی نگرانی کے حوالے سے آئندہ اجلاس میں مفصل بریفنگ دی جائے۔سینیٹر دائود اچکزئی نے کہا کہ این ٹی ایس کی بجائے واپڈا اپنی پالیسی پر عمل کر کے خود ٹیسٹ لے۔این ٹی ایس کے چیئرمین جعلی ڈگری ثابت ہونے پر بیرون ملک بھاگ گئے ہیں۔سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ واپڈا ریکروٹمنٹ رولز موجود ہیں اپنے نظام کے تحت بھرتیاں کی جائیں۔

سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ این ٹی ایس جواب دہ نہیں واپڈا خود بھرتیاں کرے جو جواب دہ بھی ہے۔سینیٹر شیرین رحمان نے سندھ طاس منصوبے کے حوالے سے کہا کہ بھارت دریائوں پر ڈیم بنائے جا رہا ہے بگھیار اور کرشن گنگا ڈیم بن گئے مزید ڈیم بننے سے منگلا ڈیم پر برے اثرات مرتب ہو گے سندھ طاس منصوبے پر نظر ثانی باہمی مشاورت سے ہونی چاہئے۔بھارت ہمارا پانی روک رہا ہے ہمیں دیکھنا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔

سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ سندھ طاس منصوبے کا معاملہ حسا س ٬تکنیکی اور قانونی ہے٬ تفصیلی بحث کیلئے چیئرمین سینیٹ سے بات کر کے اسے پورے ایوان کی کمیٹی میں لایا جائے جس میں تکنیکی ماہرین تفصیلی آگاہی دیں۔ سینیٹر غوث محمد نیازی نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے اور پاکستان کے اندر پانی کے مسائل کو بھی زیر بحث لایا جائے۔پہلے قائمہ کمیٹی کی ذیلی کمیٹی قائم کر کے تفصیلی بحث کے بعد پورے ا یوان کی کمیٹی میں بحث کرائی جائے۔

سیکرٹری پانی و بجلی محمد یونس دھاگہ نے کہا کہ رتلے ڈیم پر ہم بر وقت اقدامات کر رہے ہیں۔بھارت دریائوں کا پانی باہمی معاہدے کے تحت ہی استعمال کر سکتا ہے۔بھارت اگر عالمی معاہدوں کو توڑ کر پانی کی جارحیت پر اترتا ہے تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔سندھ طاس معاہدے کے علاوہ اور بھی بین الاقوامی کنوشنز موجود ہیں اور اس کے علاوہ بھی حل ہیں۔

2016سے نیشنل واٹر پالیسی پر کام شروع ہے اور صوبوں سے مشاورت کے بعد نیشنل واٹر پالیسی مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کی جائے گی۔سینیٹرز نعمان وزیر خٹک اور نثار محمد نے کہا کہ ٹیلی میٹری سسٹم اور توانائی کے ہوا ٬شمشی توانائی٬ کوئلے اور فیول مکس کے تمام پبلک سیکٹر منصوبوں کی تفصیلی بریفنگ دی جانی چاہیے۔سیکرٹری پانی و بجلی نے کہا کہ ہائیڈرل کی7 اور تھرمل کی3 توانائی منصوبوں کی تفصیلات اگلے اجلاس سے قبل فراہم کر دی جائینگی۔

کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ 20 ارب کے اگلے پانچ سالہ منصوبوں میں 38گرڈ اسٹیشن شامل ہیں۔جن میں درگئی کے خادو گرڈ اسٹیشن ٬چک درہ220 KV بھیشامل ہیں۔خادو درگئی کا پی سی ون منظور ہو گیا ہے۔ بٹ خیلہ گرڈ اسٹیشن کی بھی منظو ری ہو گئی ہے۔دسمبر تک زمین حاصل کر لی جائیگی۔چک درہ گرڈ اسٹیشن سے شانگلہ ٬مینگورہ ٬بٹ خیلہ میں بجلی کی فراہمی آسان ہو جائے گی۔

سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ مالا کنڈڈویژن میں 97فیصد وصولیاں ہیں۔بجلی فراہمی منصوبوں میں ترجیح دے کر جلد مکمل کئے جائے۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ خیبر پختون خواہ میں ضلعی کمیٹیاں قائم کرنے کیلئے خطوط لکھ دیئے گئے ہیں تاکہ چوریاں کم ہوںا ور قانون کو حرکت میں لایا جا سکے۔سینیٹر نثار محمد نے پشاور ٬تحت بھائی٬رائٹ آف وے کے علاوہ مالاکنڈڈویژن میں گرڈ اسٹیشنز اور فیڈرز کی زمینوں کے معاملات کو حل کرنے کیلئے پیشکش کی کہ عدالتوں کی بجائے میں خود پیسکو افسران کے ساتھ مل کر معاملات حل کرائونگا۔

سینیٹر احمد حسن نے کہا کہ وفاقی وزیر پانی بجلی کی پچھلے اجلاس میں یقین دہانی کے باوجود مالا کنڈ کے علاقوں میںعید کے دن بھی لوڈ شیڈنگ رہی۔ ذیادہ وصولیوں والے علاقوں میں لوڈ شیڈنگ نہیںہونی چاہئے۔ سینیٹر نعمان خٹک نے کہا کہ جس جس ڈیسکو میں مسائل ہیں ممبران پارلیمنٹ کو شامل کر کے مسائل حل کرائے جائیں۔سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ ممبران پارلیمنٹ قومی مفاد میں تعاون کیلئے تیار ہیں فیصلہ کیا گیا کہ اگلے ہفتے پشاور میں چیف پیسکو کے ساتھ اجلاس میں ضلعی کمیٹیوں کو متحرک کرنے کا نظام وضع کیا جائے۔

سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ واپڈا کا ٹرانسمیشن ڈسٹری بیوشن اسٹرکچرلوڈ نہیں اٹھا سکتا جس کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں اور کہا کہ پیسکو کو 300میگاواٹ کم اور لیسکو کو 400میگا واٹ فراہم ہو رہے ہیں۔آگاہ کیا گیا کہ خیبر پختونخواہ میں252فیڈرز پر جہاں وصولیاں90فیصد سے کم ہیں لوڈ شیڈنگ نہیں ہے