برمی فوج کی مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے ایک اور کاروائی: روہنجیا مسلمانوں کے ایک گاوں میں عورتوں ‘بچوں اور ضعیف افرادسمیت25 افراد کو شہید کردیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 14 نومبر 2016 14:16

برمی فوج کی مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے ایک اور کاروائی: روہنجیا مسلمانوں ..

برما(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 نومبر۔2016ء) برمی فوج نے مسلمانوں کی نسل کشی کی ایک اور کاروائی میں روہنجیا مسلمانوں کے ایک گاوں میں 25 افراد کو شہید کردیا ہے جن میں بوڑھے ‘عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔برماکی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ اس کی فوج نے ریاست رخائن میں ان دیہات پر گن شپ ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کی جہاں روہنجیا مسلم اقلیت آباد ہے۔

میانمار کی فوج کا کہنا ہے کہ مارے جانے والی لوگ خنجروں اور لاٹھیوں سے لیس تھے جن پر گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے حملہ کیاگیا۔ سوشل میڈیا پر آنے والی تصویر اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مرنے والوں میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔اس کارروائی کے باعث سینکڑوں لوگوں کو نقل مکانی بھی کرنا پڑی ہے۔

(جاری ہے)

ریاست رخائن میں کسی آزاد میڈیا کو رسائی حاصل نہیں ہے اس سے کسی بھی سرکاری بیان کو کافی تنقیدی نگاہ سے دیکھنا پڑتا ہے۔

برماکے سرکاری میڈیا کے مطابق روہنجیا مسلمانوں نے 130 گھروں کو نذرِ آتش کیا تاکہ غلط فہمی پیدا کی جائے اور بین الاقومی ادمدا حاصل کی جا سکے۔اس سے پہلے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ فوجی قافلے پر گھات لگا کر کیے گیے ایک حملے کے بعد ہونے والے تصادم میں دو فوجی اور چھ حملہ آور ہلاک ہو گئے ہیں۔اطلات کے مطابق رخائن کے علاقے میں کچھ دیہات کو جلایا بھی گیا ہے۔

انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے جاری کی گئی تصاویر میں جلے ہوئے گاوں دِکھائے گئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں 430 عمارتوں کو جلایا گیا۔گذشتہ ماہ جھڑپوں اور عام شہریوں کے علاقے سے چلے جانے کی اطلاعات کے بعد مواصلاتی سیارے کے ذریعے یہ تصاویر 22 اکتوبر اور 10 نومبر کے درمیان لی گئی ہیں۔روہنجیا کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت ایک منصوبے کے تحت مسلمان اقلیت کو اپنے دیہات سے نکلنے پر مجبور کر رہی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے برما میں نمائندے کا کہنا ہے کہ روہنجیا مسلمانوں پر حملے کرنا فوج کا ایک مقبول کام ہے۔نامہ نگار کا کہنا ہے کہ روہنجیا مسلمانوں کو برمی آبادی کی طرف سے بڑے پیمانے پر ناپسند کیا جاتا ہے جو انھیں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے تارکین وطن سمجھتے ہیں۔جھڑپوں کا تازہ ترین سلسلہ تقریباً ایک ماہ پہلے تین پولیس چوکیوں پر حملوں کے بعد شروع ہوا۔برما کی حکومت آزاد میڈیا کو رخائن میں جانے کی اجازت نہیں دے رہی جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہونے والی لڑائی کے ان دعوو¿ں کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔

متعلقہ عنوان :