نریندر کا وزیراعظم بننا بھارت جیسے غریب ملک کیلئے کسی بحرانی دھچکے سے کم نہیں، یہ شخص فاشزم اور نازی ازم سے متاثر ہے، دونلڈ ٹرمپ کی طرح مودی بھی نسلی و مذہبی اقلیتوں اور تارکین وطن کا شدید ترین مخالف ہے

معروف ناول نگار پنکج مشرا کا نیویارک ٹائمز میں مضمون

پیر 14 نومبر 2016 22:59

نیویارک۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 نومبر2016ء) دنیا کے چند غریب ترین ممالک میں سے ایک، بھارت کو 2014ء میں اس وقت ایک بڑے بحرانی دھچکے کا سامنا کرنا پڑا جب وہاں فاشزم اور نازی ازم سے متاثرہ شخص نریندر مودی وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان خیالات کا اظہار معروف بھارتی ناول نگار پنکج مشرا نے نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کیا ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ اقتدار کے دوسرے سال ان کی جو شخصیت سامنے آئی ہے اس کے مطابق نریندر مودی ایک ایسے طاقتور حکمران کے طور پر سامنے آئے ہیں جو مفاد پرست اور اقتدار کا بھوکا ہے اور جس کیلئے وہ بوگس انداز بھی اختیار کرتا ہے۔ پنکج مشرا نے مزید لکھا ہے کہ دونلڈ ٹرمپ کی طرح مودی بھی نسلی و مذہبی اقلیتوں اور تارکین وطن کا شدید ترین مخالف ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے لکھا ہے کہ بھارتی آئین کے خالق ڈی آر امبیدکر نے 1950ء میں خبردار کیا تھا کہ ’’بھارتی سرزمین پر جمہوریت ایک ظاہری چہرہ اور لباس ہے جو دراصل غیر جمہوری ہے‘‘۔ آج وہ جمہوری چولہ تار تار ہو رہا ہے۔ نریندر مودی کے دور حکومت میں ان قوم پرست ہندوئوں نے جن کی حیثیت کبھی ایک کپڑے میں جھالر کی سی تھی اب انہوں نے مختلف اداروں میں مرکزی حیثیت حاصل کر لی ہے۔

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ 2001ء سے 2014ء تک گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی پر یہ الزام عائد رہا کہ وہ وہاں پر مسلمانوں کے قتل عام اور اجتماعی آبروریزی جیسے جرائم کی سرپرستی کرتے رہے ہیںجس کے باعث ان پر ایک دہائی تک امریکہ میں سفر پر پابندی عائد رہی۔ نریندر مودی کے دورے حکومت میں بھارت کی بنیادی پالیسیوں میں بڑی تبدیلی آرہی ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ اب امریکی طرز کے تھنک ٹینک کا اثرورسوخ بڑھ چکا ہے جنہیں ایسے بزنس کی معاونت حاصل ہے جو بھارتی سیاسی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے۔

وہ فوجی اخراجات کو بھی اپنی فیصلہ سازی سے متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں اسے ’’پالیسی انٹرپرنیور‘‘ کا نام لیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے فری مارکیٹ اصلاحات اور سٹیٹ سیکورٹی پر بھاری اخراجات کرنے کے تصور کی حمایت کی جاتی ہے۔ ۔