ادارے مستحکم اور فعال ہوں تو کارکردگی نمایاںہوتی ہے،عدلیہ میںتمام اصلاحات کا واحد مقصد صرف اور صرف مقدمات کی جلد سماعت اور شہریوںکو انصاف کی فراہمی ہے تاکہ ان کے مصائب دور ہوں اور ادارے سے وابستہ توقعات پوری ہوں، باہمی گفت و شنید سے ہی اختلافات ختم اور مسائل حل ہوتے ہیں ، ہمیں ملک کے استحکام اور ترقی اور عوام خدمت کے لئے مل جل کر خدمات سر انجام دینے کا عہد کرنا چاہیے

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ کا تقریب سے خطاب

پیر 14 نومبر 2016 23:03

راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 14 نومبر2016ء) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ادارے مستحکم اور فعال ہوں تو کارکردگی نمایاںہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ عدلیہ میںتمام اصلاحات کا واحد مقصد صرف اور صرف مقدمات کی جلد سماعت اور شہریوںکو انصاف کی فراہمی ہے تاکہ ان کے مصائب دور ہوں اور ادارے سے وابستہ توقعات پوری ہوں۔

انہوں نے کہا کہ باہمی گفت و شنید سے ہی اختلافات ختم اور مسائل حل ہوتے ہیں اور ہمیں ملک کے استحکام اور ترقی اور عوام خدمت کے لئے مل جل کر خدمات سر انجام دینے کا عہد کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بات لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں لاہور ہائیکورٹ کی 150 سالہ تقریبات کے سلسلے میںخصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

تقریب میں جسٹس شاہد حمید ڈار ،جسٹس مظہر اقبال ،جسٹس محمد امیر بھٹی ،جسٹس شاہد عباسی،جسٹس ملک شہزاد احمد خان،جسٹس عباد الرحمن لودھی ،جسٹس علی باقی نجفی ، جسٹس عاطرمحمود ، جسٹس محمد طارق عباسی ،جسٹس خالد محمود ملک ،جسٹس مرزا وقاص داود، جسٹس سردار احمدنعیم ، جسٹس راجہ شاہد محمود عباسی کے علاوہ ، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، بار ایسوسی ایشنز کے عہدیدراوں، سابق سینئر ججز، وکلا ، سول سوسائٹی کے نمائندوں، انتظامیہ کے افسران اور دیگر اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی فرد واحد کے نہیں بلکہ لاہور ہائیکورٹ کے ادارے کے 150 سال مکمل ہوئے ہیںکیونکہ فرد کچھ نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں اور اداروں کے استحکام سے ہی ملک ترقی کرتا ہے۔انہوں نے تقریب میں ریٹائرڈ ججز کی موجود گی پران کا شکریہ ادا کیا اور کہاکہ سینئرز کا احترام ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اسی سے ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔

انہوں نے اس موقع پر کہاکہ لاہور ہائیکورٹ کے ادارے کے کئی جز وہیں، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج فرنٹ لائن ججزکے طور پربلا خوف و خطر فیصلے کرتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ جوڈیشری مشکل ترین حالات میں کام کرتی ہے اور اسی طرح ہائیکورٹ کا عملہ بھی ادارے کے استحکام میں برابر کا شریک ہے۔ انہوں نے کہاکہ عدلیہ کے سٹاف کے الاوئنسز کا مسئلہ حل ہو گیاہے ، جوڈیشل الاونس کے بقایا جات کے ساتھ ملنا خوشی کی بات ہے جس کے لئے دیگر اداروں نے بھی مدد کی۔

انہوں نے کہاکہ پولیس فورس ایگزیکٹو اداروںکو آپس میں ڈائیلاگ کرکے مل جل کر ملک کی خدمت کرنا چاہیے ، عدلیہ کا اپنا کردار ہے اور یہ ادارہ مکمل خودمختاری کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیتا ہے لیکن دیگر اداروں کی معاونت کے بغیر خدمات سر انجام نہیں دی جاسکتیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہانے ہائیکورٹ کی تقریبات کا مقصد یہ ہے کہ ہم مل بیٹھ کر سوچیں کہ ہمارا آئندہ وژن کیا ہونا چاہیے ، ہمارا سب سے اولین فرض لوگوں کے مقدمات کے فیصلے کرنا ہے۔

لوگ ہمارے پاس مقدمات لاتے ہیں اور ہم نے بلا خوف و خطر فیصلے کرنا ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ سنگا پور میں قتل کا مقدمہ دو ہفتوں میں مکمل ہو جاتا ہے ۔ اگر سنگا پور دو ہفتے میں فیصلہ کرتا ہے تو ہمیں چھ مہینوں میں یہ فیصلہ کرلینا چاہیے۔ انہو ں نے کہا کہ ہم ہر کیٹگریز بنا رہے ہیں آڈٹ کرکے ججز کی تعداد پوری کر رہے ہیں۔ آئی ٹی سسٹم لا رہے ہیں ۔ لاہور کی جوڈیشل اکیڈمی کی شکل بدل دی ہے ۔

مقدمات کی شیلف لائف میں کمی کر رہے ہیں۔لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود ہم مقدمات کا جلد فیصلہ نہیں کرتے تو تمام کوششیں رائیگاں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جج اور وکلاسخت محنت کرتے ہیں نہیں لیکن عوام اسی وقت مطمئن ہوتے ہیں جب ان کے مقدما ت کے فیصلے جلد ہوں۔ انہوں نے کہاکہ میں نے ہمیشہ شفافیت اور میرٹ کو مقدم رکھا ہے، سفارش ، رعایت اورسمجھوتے سے نفرت ہے ، ہم نے ہائیکورٹ کے ججزکی تقرری کا نیا طریقہ کار اختیار کیا اور بار اایسوسی ایشنشز سے نام لے کر سسٹم کے تحت مکمل طور پر اہل ججز تعینات کئے گئے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ میرٹ اور شفافیت میرا طرہ امتیاز ہے اور مقصد یہی ہے کہ ججز لوگوں کی دعائیں لیں اور ان کے لئے آسانیاں پیدا کریں اور اپنے اختلافات بھلا کر آگے چلیں اور ادارے اور سسٹم کو مضبوط کریں۔ اس سے قبل انہوں نے عدلیہ عالیہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہاکہ چیف کورٹ سب سے بڑی اپیلٹ کورٹ تھی، ۔ قبل ازیںجسٹس ملک شہزاد احمد خان نے عدلیہ کے وقار اور اعلی کردار کے بارے میں خیالات کا اظہار کیا۔

جسٹس محمد امیر بھٹی عدلیہ کے اداروںکے قیام کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔ ریٹائرڈ جج صاحبان کی طرف سے سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ امتیاز احمدنے کہاکہ اداروں کی زندگی میں یہ مواقع قیمتی ہوتے ہیں جب اداروں کی خدمات کو یاد کیا جائے انہوں نے ہائیکورٹ کے ادارے کی ترقی اور نیک نامی کے لئے دلی جذبات کا اظہار کیا۔ جسٹس شاہد حمید ڈار نے لاہور ہائیکورٹ کی 150 سالہ تقریبات کے حوالے سے پنجاب میں مختلف سرگرمیوں کا ذکر کیا۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتراوصاف نے اظہار خیال کے دوران کہاکہ وقت آگیا ہے کہ مروجہ طریقہ کار سے باہر نکل کر مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ای لائبریریز اور ای فائلنگ پر زور دیا جس سے آسانی میسر آئے گی۔ انہوں نے تقریبات کو درست سمت میں اہم قدم قرار دیا۔ راولپنڈی بار کے سینئر رکن شیخ ضمیر حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا مقام پورے برصغیر میں نمایاں رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ لائبریری میں جج صاحبان کی سوانح عمری اورجوڈیشری کے بارے میں جدید کتب رکھی جائیں۔ ضلعی عدلیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی بہادر علی خان نے کہا کہ راولپنڈی کو عدلیہ کے حوالے سے تاریخی مقام حاصل ہے جہاں منصف کا دفتر قائم ہوا اور ایم اے صوفی راولپنڈی میں پہلے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مقرر ہوئے ۔ انہوں نے کہاکہ راولپنڈی ضلع سات سب ڈویژنز پر مشتمل ہے اور یہاں ضلعی جوڈیشل کمپلکس کی شاندار عمارت تعمیر کی گئی ہے۔