دنیا کو جمہوریت کا درس دینے اور جمہوریت کے نام پر کئی ملکو ںمیں فوجی مداخلت کرنے والی دنیا کی واحد سپرپاور امریکا کے انتخابی نظام میں عوام کی اکثریت کی بجائے538الیکٹرورلزملک اور قوم کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں-الیکٹورل کالج کے دو سو سالہ پرانے اور پیچیدہ تبدیل کرنے کے لیے 700سے زائد تجاویز دی گئیں، مگر ان تجاویز کو کانگریس یا سینیٹ سے منظوری نہ مل سکی۔امریکی قانون سازاپنے عوام کو براہ راست ووٹ کے ذریعے صدر چننے کا اختیار دینے کو تیار نہیں-امریکی انتخابی نظام پر خصوصی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 15 نومبر 2016 14:14

دنیا کو جمہوریت کا درس دینے اور جمہوریت کے نام پر کئی ملکو ںمیں فوجی ..

نیویارک(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 نومبر۔2016ء) دنیا کو جمہوریت کا درس دینے اور جمہوریت کے نام پر کئی ملکو ںمیں فوجی مداخلت کرنے والی دنیا کی واحد سپرپاور امریکا کے انتخابی نظام میںعوام کی اکثریت کی بجائے538الیکٹرورلزملک اور قوم کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انتخابات ختم ہونے کے باوجود عوام سڑکوں پر موجود ہیں اور نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔

گزشتہ16 سال میں دوسری مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ زیادہ عوامی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار امریکی صدارتی انتخاب میں کامیاب نہ ہوسکا۔ امریکی انتخابی نظام میں ایسا سقم باقی ہے جو کہ عوامی مقبولیت کے حامل فرد کو صدارتی انتخاب جیتنے سے روک سکتا ہے۔ انتخابی نتائج کے مطابق الیکٹورل کالج جو صدر کا انتخاب کرنے والے 538 نمائندوں پر مشتمل ہوتا ہے میں حالیہ انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے 306 اور ہیلری کلنٹن نے 232 ووٹ جیتے ہیں۔

(جاری ہے)

جبکہ 9 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں امریکا کے 23 کروڑ 10 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 12 کروڑ 88 لاکھ افراد، یعنی 55.6 فی صد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔جن میں سے ہیلری کلنٹن نے 5 کروڑ 99 لاکھ سے زائد جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 5 کروڑ 97 لاکھ سے زائد عوامی ووٹ لیے ہیں۔ اس طرح ہیلری کلنٹن نے 2 لاکھ 33 ہزار زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔مگر ہیلری زیادہ عوامی ووٹ حاصل کرنے کے باوجود الیکٹورل کالج میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہیں، اس وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ ووٹرز میں عددی برتری نہ رکھتے ہوئے بھی صدر منتخب ہوگئے ہیں۔

ایسی ہی صورتحال سال 2000 میں ڈیموکریٹس پارٹی کے امیدوار الگور اور ریپبلیکن پارٹی کے جارج ڈبلیو بش کے درمیان مقابلے میں سامنے آئی۔ سال 2000 کے صدارتی انتخابات میں بھی الگور نے 48.4 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ جارج ڈبلیو بش نے 47.9 فی صد عوامی ووٹ حاصل کیے، مگر مقبول ووٹ حاصل کرنے والے الگور کو صرف 266، جبکہ جارج بش کو 271 الیکٹورل کالج ووٹ حاصل ہوئے۔

سال 2000 اور 2016 میں قدر مشترک ہے کہ عوامی ووٹ حاصل کرنے والا الیکٹورل کالج کی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہا، اور دونوں انتخابات میں ہارنے والی جماعت ڈیموکریٹس اور جیتنے والے ریپبلیکن رہی۔سال 2000 میں الگور نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے فلوریڈا میں دوبارہ ووٹوں کی گنتی کا مطالبہ کیا اور مہینوں کی قانونی جنگ کے بعد امریکی سپریم کورٹ نے ووٹوں کی دوبار گنتی کا عمل روکتے ہوئے جارج بش کو کامیاب قرار دے دیا۔

امریکا میں سال 2000 کے انتخابات متنازع قرار دیے جاتے ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ کا یہی فیصلہ ہے کہ شاید اس مرتبہ ہیلری کلنٹن نے قانونی جنگ لڑنے کے بجائے نتائج کو قبول کرلیا ہے۔امریکا کے بانیان نے امریکی آئین کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے سربراہ کے انتخاب کا عمل وضع کیا تھا۔ جس وقت امریکی آئین میں صدارتی انتخابات کا طریقہ کار وضع کیا گیا، اس وقت امریکی ریاستوں کی تعداد 13 تھی جو کہ وقت کے ساتھ بڑھتے بڑھتے 50 تک پہنچ چکی ہے۔

وفاق ہر ریاست کو صدارتی انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج کی تعداد مقرر کرتا ہے۔امریکا میں وفاق کے بجائے ہر ریاست صدارتی انتخابات کا انعقاد کرتی ہے۔ اور پولنگ کے طریقہءِ کار اور ووٹوں کی گنتی کے کسی عمل میں وفاق کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ریاستیں اس تمام عمل کو اپنے اپنے قوانین کے مطابق وضع کرتی ہیں۔ زیادہ تر ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی مشینوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔

کچھ ریاستوں میں الیکٹورل کالج حاصل کردہ ووٹوں کی بنیاد پر امیدواروں میں تقسیم کیے جاتے ہیں جبکہ بعض ریاستوں میں جو بھی زیادہ ووٹ حاصل کرے، اس امیدوار کو الیکٹورل کالج کے تمام ووٹوں کا حقدار قرار دیا جاتا ہے جنہیں سوئنگ اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔امریکی نشریاتی ادارے نیشنل پبلک ریڈیو کے مطابق الیکٹورل کالج کا نظام نہایت ہی پیچیدہ ہے اور صرف 30 فی صد ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار بھی صدارتی انتخاب جیت سکتا ہے۔

امریکی آرکائیو کے مطابق الیکٹورل کالج کو گزشتہ دو سو سال کی تاریخ میں تبدیل کرنے کے لیے 700سے زائد تجاویز دی گئیں، مگر ان تجاویز کو کانگریس یا سینیٹ سے منظوری نہ مل سکی۔اس حوالے سے متعدد سروے بھی کیے گئے جس میں عوامی اکثریت نے الیکٹورل کالج کے نظام کو ختم کرنے کے حق میں رائے دی۔ آرکائیو کے مطابق 1967 میں کیے گئے سروے میں 58 فی صد، 1968 میں 81 فی صد اور 1981 میں 75 فی صد عوام نے الیکٹورل کالج کو ختم کرنے کے حق میں رائے دی ہے۔

امریکی کانگریس کے 91 ویں اجلاس میں الیکٹورل کالج کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک قرارداد 1969 میں پیش کی گئی، جس میں الیکٹورل کالج کو ختم کر کے براہ راست عوامی ووٹوں کے ذریعے صدر کے انتخاب کرنے کا کہا گیا تھا۔اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ 40 فی صد سے کم ووٹ لینے کی صورت میں دوبارہ پولنگ کروائی جائے گی۔کانگریس کی اس قرراداد کو سینیٹ سے منظوری نہیں مل سکی جس کی وجہ سے یہ نظام تاحال برقرار ہے۔

موجودہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اور امریکی تاریخ میں پانچویں مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ عوامی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار انتخاب جیتنے میں ناکام ہوگیا ہے۔امریکی صدارتی انتخابات کا نظام پیچیدہ اور فرسودہ ہوچکا ہے اور صدر کو منتخب کرنے کے لیے موجود نظام 200 سال سے زائد پرانا ہے۔ دنیا بھر میں نوخیر جمہوریتیں انتخابی نظام میں متعدد مرتبہ تبدیلیوں کے بعد اپنے انتخابی اور جمہوری نظام میں موجود خامیوں اور سقم کو دور کر رہی ہیں۔

نہ جانے کیوں امریکا میں متعدد مرتبہ کی کوششوں کے باوجود ملک کے سربراہ اور دنیا کے طاقتور ترین فرد کے انتخاب کے لیے نظام اس قدر پیچیدگیوں سے بھرا پڑا ہے کہ جس میں امریکی عوام کی مرضی ایک طرف رہ جاتی ہے اور وہ نظام کے ہاتھوں ناپسندیدہ امیدوار کو صدر تسلیم کرنے پر مجبور ہو کر رہ جاتے ہیں۔ امریکا میں ریاستی امور صرف وائٹ ہاو¿س سے نہیں چلائے جاتے ہیں، بلکہ ان امور کو چلانے کے لیے مختلف طاقت کے مراکز ہیں۔

اور اس پیچیدہ انتخابی نظام کو قائم رکھنے میں بھی اس اسٹیبلشمنٹ کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔کیا اگلی مرتبہ امریکی عوام الیکٹورل کالج کے پیچیدہ نظام سے جان چھڑا کر براہ راست امریکی صدر کا انتخاب کرسکیں گے؟ ایسا ہونا مشکل نظر آتا ہے۔امریکا کے ایوانوں میں ڈیموکریٹس کے بجائے ریپبلیکنز کی اکثریت ہے اور اگر کسی بھی رکنِ کانگریس یا سینیٹ نے کوشش کی بھی تو ریپبلیکنز اس نظام سے جان چھڑانے کے لیے تیار نہ ہوں گے کیونکہ اس نظام کی وجہ سے انہیں متعدد بار انتخاب جیتنے میں مدد ملی ہے۔

متعلقہ عنوان :