پاکستان اور بھارت اپنے تعلقات معمول پر لانے کیلئے پہلے نسبتاً کم پیچیدہ معاملات کو حل کریں، پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات میں بہت بعد میں ہو گا تاہم اگر صورتحال خراب کرنے والا کوئی واقعہ ہو گیا تو ان کی توجہ اس طرف مبذول ہو سکتی ہے، امریکی سلامتی امور کے ماہر ڈاکٹر مرون جی وینبام کی صحافیوں سے گفتگو

منگل 15 نومبر 2016 20:34

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 نومبر2016ء) خطہ کے معاملات پر امریکی سلامتی امور کے ماہر ڈاکٹر مرون جی وینبام نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے تعلقات معمول پر لانے کیلئے پہلے نسبتاً کم پیچیدہ معاملات کو حل کریں اور اس کے بعد انہیں کشمیر جیسے سخت ترین ایشو کی طرف آنا چاہئے۔ یہاں صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں کو اپنے دیرینہ تنازعات کے حل کیلئے بات چیت کے دوران کشمیر کے تنازعہ کو فہرست کے شروع میں نہیں بلکہ آخر میں رکھنا چاہئے، کشمیر جیسے تصفیہ طلب تنازعات دونوں ممالک کے مابین معمول کے تعلقات قائم ہونے کے بعد حل ہو سکتے ہیں۔

امریکی انتخابات میں ری پبلک امیدوار کی حیران کن کامیابی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات میں بہت بعد میں ہو گا تاہم اگر صورتحال خراب کرنے والا کوئی واقعہ ہو گیا تو ان کی توجہ اس طرف مبذول ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

ڈونلڈ ٹرمپ کی زیادہ توجہ شام کی صورتحال پر ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ نومنتخب صدر کی امریکی داخلی معاملات اور اپنی معیشت پر زیادہ توجہ مرکوز ہوتے ہوئے پاکستان کی امداد میں کمی ہو سکتی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین جوہری تنازعہ کی صورت میں سنگین نتائج سے خبردار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جوہری تنازعہ کی صورت میں دونوں ممالک کیلئے غلہ پیدا کرنے والا پنجاب سوویت یونین میں 1986ء کے چرنوبل تباہی جیسے سانحہ سے دوچار ہو سکتا ہے اور آئندہ 50 سالوں تک یہاں کچھ بھی نہیں اُگ سکے گا۔ ڈاکٹر مرون جی وینبام نے افغان صورتحال کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ طالبان امن مذاکرات پر آمادہ ہو سکتے ہیں لیکن ابھی اس کیلئے مناسب وقت نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ افغانستان سے امریکہ کو نکلتا ہوا نہیں دیکھ رہے کیونکہ افغانستان دوبارہ انتہاء پسندی کا مرکز بن سکتا ہے جس کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے طالبان پر اثر و رسوخ کے حوالہ سے سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے لیکن بہت سی وجوہات کے باعث امن معاہدہ کیلئے ان پر دبائو نہیں ڈال سکتا۔

پاکستان کابل میں اپنے مفاد میں دوستانہ حکومت چاہتا ہے اور اپنی پسند کے مطابق امن معاہدے کا خواہاں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں پروفیسر مرون جی وینبام نے کہا کہ بھارت افغانستان میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے کیونکہ وہ کابل پر انتہاء پسندوں کا قبضہ نہیں چاہتا کیونکہ اس سے بھارتی مفاد پر اثر پڑے گا اور انتہاء پسندی وہاں پہنچے گی۔

افغان حکومت کی ممتاز جنگی کمانڈر اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے ساتھ ڈیل سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس سے افغان صورتحال مزید پیچیدہ ہو گی۔ گلبدین کے پاس پیش کرنے کیلئے کچھ نہیں اور افغانستان میں شورش میں ان کا کوئی اہم کردار نہیں ہے۔ یہ خیال کرنا غلط ہو گا کہ طالبان بھی ان کے راستے پر چلیں گے کیونکہ گلبدین حکمت یار افغانستان میں خود کو اہم پوزیشن پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر مرون جی وینبام اربانا کیمپین میں یونیورسٹی آف ایلی نوئس میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں اور انہوں نے 1999ء سے 2003ء کے دوران امریکی محکمہ خارجہ میں بیورو آف انٹیلی جنس اینڈ ریسرچ میں پاکستان اور افغانستان کے امور پر تجزیہ کار کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ اس وقت وہ واشنگٹن ڈی سی میں مشرق وسطیٰ انسٹی ٹیوٹ میں سکالر ہیں۔ اس کے علاوہ وہ 6 کتابوں کے مصنف/ایڈیٹر ہیں اور انہوں نے سو سے زائد جریدوں میں آرٹیکلز لکھے ہیں۔