پہلے کہانی تھی رائے ونڈ سے دبئی اور جدہ اب یہ کہانی دبئی سے قطر چلی گئی ہے

جب شروع میں جھوٹ بول دیا جائے تو مزید جھوٹ بولنے پڑتے ہیں

منگل 15 نومبر 2016 21:34

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 نومبر2016ء) پاناما کیس نے پہلے بھی کئی قلابازیا ں کھائی ہیں اور اب پھر اس میں ایک نئی کہانی آ گئی ہے۔پہلے کہانی تھی رائے ونڈ سے دبئی اور جدہ اب یہ کہانی دبئی سے قطر چلی گئی ہے ۔جب شروع میں جھوٹ بول دیا جائے تو مزید جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، ترک صدر کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں اور ترک سفیر کی دعوت کی قدر کرتے ہیں ،ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم نہیں کرسکتے۔

یہ بات چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے آج شام بنی گالہ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف پر کرپشن کے الزامات ہیں۔وہ وزیراعظم کے عہدے پر اب نہیں رہ سکتے۔ جیسے انھوں نے گیلانی کو مستعفی ہونے کا کہا تھا ویسے ہی نواز شریف بھی مستعفی ہوکر آئیں۔

(جاری ہے)

نواز شریف نے جو کچھ کیا اس پر ہم انھیں وزیر اعظم نہیں مانتے ۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف کواخلاقی طورپر7ماہ پہلے ہی استعفی دے دینا چاہئے تھا۔حکومت نے جوکچھ کارکنوںکے ساتھ کیااس کے بعدپارلیمنٹ نہیں جاسکتے۔پر امن احتجاج ہمارا حق تھا۔ لیکن مجھے نظربند کیا گیا، ہمارے کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ہمارے ایک ایم این اے شیل لگنے سے بیہوش ہوئے۔پرویز خٹک وزیر اعلی ہیں ان پر اور کارکنوں پر بھاری شیلنگ کی ۔

جو انھوں نے کیا ہے وہ ہم کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے ۔ایک سیاسی جماعت پرامن طریقہ سے وزیر اعظم کے احتساب کا مطالبہ کررہی تھی اور حکومت نے اس پر لاٹھیاں برسائیں ۔ کیا یہ قانون کے مطابق تھا۔کیا نواز شریف کا یہ رویہ جمہوری تھا حکومت نے معافی تک نہیں مانگی۔ اس لیئے موجودہ صورتحال میںہمارا پارلیمنٹ جانابنتاہی نہیں۔ہم نے فیصلہ کیا کہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم نہیں کرسکتے۔

اورجب تک سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے پارلیمنٹ نہیں جائیں گے۔عدالت کہہ رہی ہے کہ کیس کوطول نہیں دیں گے۔پانامالیکس کیس ساری قوم کے سامنے ہے۔ہم سپریم کورٹ کی مدد کریں گے۔تمام چیزیں عدالت میں آئیں گی۔ ترک صدر کی آمد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کل شاہ محمود قریشی نے ترک سفیر سے ملاقات کی اور اس کے بعد ہم نے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کے فیصلے پر مشاورت کی ہے۔

ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہم پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ ختم نہیں کرسکتے ۔ ایسی پارلیمنٹ میں نہیں جاسکتے جہاں کرپشن کیسزمیں ملوث وزیراعظم موجودہوں۔اس مین کوئی شک نہیں کہ ہماری سب سے زیادہ دوستی ترکی کے لوگوں سے ہے۔اگرلوگ چائنہ سے بھی زیادہ کسی سے پیارکرتے ہیںتو ترکی سے کرتے ہیں۔ ہم ترک صدر کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں اور ترک سفیر کی دعوت کی قدر کرتے ہیں ۔مگر پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے ۔اگر حالات اچھے ہوتے تو ہم اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہمارے دوست آئیں اور ہم نہ جائیں ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تاحال ترک صدر سے ملاقات کا بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہی

متعلقہ عنوان :