سرسید یونیورسٹی ایک کتابچہ شائع کرنے والی ہے جس میں سرسید احمد خان کے کارناموں اور فکر کو اجاگر کیا جائے گا،چانسلر جاوید انوار

جمعرات 17 نومبر 2016 15:05

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 نومبر2016ء)سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے چانسلر جاوید انوار نے کہا ہے کہ اگلا سال سرسید احمد خان کی آگہی کا سال ہے اور ہم ان کا دو سو سالہ جشن شایانِ شان طریقے سے منائیں گے جس کے لئے پروگرامز ترتیب دئے جار ہے ہیں۔اس حوالے سے سرسید یونیورسٹی ایک کتابچہ شائع کرنے والی ہے جس میں ان کے کارناموں اور فکر کو اجاگر کیا جائے گا تاکہ ان کے افکار کے بارے میں جو ابہام ہیں وہ دور ہوں۔

شعبہ بائیومیڈیکل انجینئرنگ کے زیرِ اہتمام ایک بین الاقوامی سمینار کا انعقاد بھی ہوگا جس میں غیر ملکی ادارے بھی شرکت کریں گے۔اس موقع پر اردو اور انگریزی زبانوں میں ایک کیلنڈر بھی شائع کیا جائے گا۔سرسید نے فکر و آگہی کی جو آگ وہاں جلائی اس کی تپش اور حرارت یہاں بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔

(جاری ہے)

دورِ حاضر کے عوامی رجحانات اور روییمعاشرے میں مثبت تبدیلیوں کی ضرورت کا احساس دلارہے ہیں۔

موجودہ حالات تبدیلی کے متقاضی ہیں جس کے لیے ہمیں غفلت کے اندھیروں سے نکلنا ہوگا اور سرسید احمد خان کی تعلیمات و فکر کا اپنانا ہوگا۔یہ بات انھوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحیکے اعزاز میں سرسید یونیورسٹی کی جانب سے منعقدہ استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔چانسلر جاوید انوار نے کہا کہ سرسید یونیورسٹی میں صرف تعلیم پر ہی توجہ نہیں دی جاتی بلکہ اس بات کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے کہ کردار و شخصیت سازی سے پورے اخلاص کے ساتھ طلباء کو ایک اچھا انسان بنایا جائے۔

ہم نہ صرف سرسید کی تعلیمات و تربیت کو آگے لے کر چل رہے ہیں بلکہ ان کی سوچ و فکرکی رہنمائی میں فروغِ تعلیم کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لارہے ہیں۔علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے تشریف لائے ہوئے مہمان پروفیسرڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی نے کہا کہ سرسید کی فکر اور زندگی کے حوالے سے مقامی زبانوں میں ان کی تصانیف کے تراجم ہو رہے ہیں۔رسالہ تہذیب الاخلاق کی تمام جلدوں کی دوبارہ اشاعت پر کام ہو رہا ہے کیونکہ اگر اس کی دوبارہ طباعت نہ کی گئی تو سرسید کی فکر کا آدھا حصہ ضائع ہو جائیگا۔

سرسید کی تصنیفات کا بغور مطالعہ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ان کی تحریروں کو صحیح پس منظر میں دیکھنا اور پرکھنا ہو گا۔سرسید کی نئی جہتوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ فکر و تدبر کے لحاظ سے سرسید احمد خان جنوبی ایشیاء کی ایک بہت بڑی شخصیت تھے۔وہ جدید علوم کے ساتھ ساتھ مقامی زبانوں کے علم کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے تھے۔وہ انگریزوں کے قریب ضرور تھے مگرانھوں نے اپنے اسلامی تشخص کو کبھی متاثر ہونے نہیں دیا۔

سرسید کی تفسیر کے بارے میں مختلف قسم کی ر ائے اور خیالات کا اظہار کیا گیا مگر کسی نے بھی ان کی تفسیر کو سرے سے پڑھا ہی نہیں اور اگر پڑھا بھی تو اسے صحیح طور سے سمجھا نہیں۔قرآنیات کو برصغیر میں آگے بڑھانے میں سرسیداحمد خان کا ایک بڑا اہم کردار ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ان کے دینی و ثقافتی تصور کو سیاق و سباق کے حوالے سے صحیح طور سے نہیں سمجھا گیا۔

پروفیسرڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی نے کہا کہ سرسید یونیورسٹی ایک مستحکم ادارہ ہے اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بعد فکرِسرسید کی پوری طرح ترجمانی کرتا ہے۔تدریس، تعلیم اور تربیت کا امتزاج ہے۔علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا امتیاز یہ ہے کہ اس ادارے نے تعلیم میں تربیت کا رس گھول دیا ہے۔ترقی کا عمل اخلاص اور دیانت داری سے منسلک ہے۔قوم کی تعمیر، ملک کی تشکیل اور بچوں کی شخصیت سازی کے لیے اخلاص ضروری ہے۔اس موقع پرسرسید یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید جاوید حسن رضوی، رجسٹرار سید سرفراز علی، اموبا کے نائب صدر سید انور علی، جنرل سیکریٹری محمد ارشد خان، جوائنٹ سیکریٹری پبلسٹی تسنیم احمد، ایگزیکیٹو کمیٹی کے رکن محمد اعجازالیقین و دیگر بھی موجود تھے۔