پاکستان اور ترکی کے درمیان سیاست‘ معیشت‘ دفاع‘ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کی ضرورت ہے

پاکستان نے اپنی اقدار کے تحفظ کے ساتھ ساتھ جمہوریت پر عملدرآمد کرتے ہوئے مسلم امہ کے لئے ایک اہم مثال قائم کی ہے ترکی کو کشمیر میں حالیہ بھارتی مظالم پر گہری تشویش ہے اور وہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کا خواہاں ہے،اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرینگے‘ دونوں ملکوں کو مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کا حل نکالنا چاہیے‘ بین الاقوامی طاقتوں کو بھی اس ضمن میں کردار ادا کرنا چاہیے‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستانہ اور اچھے تعلقات خطے کے لئے ضروری ہیں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب

جمعرات 17 نومبر 2016 16:52

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 نومبر2016ء) ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے پاکستان اور ترکی کے درمیان سیاست‘ معیشت‘ دفاع‘ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے اپنی اقدار کے تحفظ کے ساتھ ساتھ جمہوریت پر عملدرآمد کو کامیابی کے ساتھ سرانجام دینے کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم امہ کے لئے ایک اہم مثال قائم کی ہے‘ ترکی کو کشمیر میں حالیہ بھارتی مظالم پر گہری تشویش ہے اور وہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کا خواہاں ہے اور اس ضمن میں وہ اپنا کردار ادا کرے گا‘ دونوں ملکوں کو مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے‘ بین الاقوامی طاقتوں کو بھی اس ضمن میں کردار ادا کرنا چاہیے‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستانہ اور اچھے تعلقات خطے کے لئے ضروری ہیں۔

(جاری ہے)

جمعرات کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ میں آپ سب کو اپنی‘ اپنے وفد اور ترک قوم کی جانب سے دلی جذبات‘ احترام‘ محبت و خلوص بھرا سلام پیش کرتا ہوں۔ میں ترکی سے آپ سب کے لئے محبتیں سمیٹنے ہوئے آیا ہوں۔ میں ایک بار پھر تمام تر پاکستانی بھائیوں سے اپنی محبت‘ احترام اور خلوص کا اظہار کرتا ہوں۔

2012ء کے دورہ پاکستان کے دوران بھی میں نے قومی اسمبلی و سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی تھی۔ تقریباً ساڑھے چار سال بعد قومی حاکمیت کی علامت ہونے والے اس ادارے کی چھت تلے ایک بار پھر آپ کے ساتھ یکجا ہونا میرے لئے انتہائی مسرت کا موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنی اقدار کے تحفظ کے ساتھ ساتھ جمہوریت پر عملدرآمد کو کامیابی کے ساتھ سرانجام دینے کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم امہ کے لئے ایک اہم مثال قائم کی ہے۔

اس احسن کامیابی پر آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ترکی اور پاکستان کے تعلقات کسی دو ملکوں کے مابین سفارتی رابطے کی سطح سے کہیں ہٹ کر خصوصیات کے مالک ہیں۔ ترک صدر نے کہا کہ ہم صرف الفاظ تک ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں دو برادر ملک ہیں۔ ہمارے عوام کے درمیان اس قدر گہری دوستی اور محبت کا ناطہ پایا جاتا ہے کہ ہم پاکستانی بھائیوں کی خوشی اور غمی میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ آپ کے جذبات بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری مملکت و اقوام نے تاریخی اعتبار سے اسی مفاہمت کا کھل کر مظاہرہ کیا ہے۔ مولانا جلال الدین رومی وسیع معنوں میں اسی جغرافیہ پر جنم لینے والے اپنے فیض و علم کو اناطولیا سے دنیا بھر تک پھیلانے والے ایک مشترکہ اثاثہ اور اقدار ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں گزشتہ ایک صدی کی پیشرفت کا جائزہ لینے سے ہماری باہمی دوستی کی گہرائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معرکہ چناک قلعے کے دوران ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی بھائیوں کے انتہائی کٹھن حالات میں ہماری مدد کو پہنچنے کو ہم نے نہ کبھی فراموش کیا نہ کبھی کر سکتے ہیں۔ ہماری جنگ نجات کے دوران بھی پاکستان کی امداد اور تعاون ہمیشہ ہماری یادداشتوں میں زندہ رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج کی جمہوریہ ترکی کی بنیادوں پر بلقانی جنگ کے دوران سلطنت عثمانیہ کی مدد کو دوڑے چلے آنے والے معرکہ چناک قلعہ اور بعد ازاں جنگ نجات میں شرکت کرنے والے اعلان جمہوریت کے بعد بھی ہمارے وطن کے لئے وسیع پیمانے پر خدمات سر انجام دینے والے عبدالرحمان پشاوری کی طرح کے متعدد پاکستانی ہیروز کی محنت و مشقت کارفرما ہے۔

انہوں نے عبدالرحمان پشاوری کے حوالے سے بتایا کہ ان کی والدہ محترمہ نے اب گھر لوٹ آنے کا پیغام بھیجا تھا جس پر ہمارے بھائی نے یہ جواب دیا تھا کہ اناطولیا پر دشمن کا قبضہ ہونے کے وقت میں کیسے واپس لوٹ سکتا ہوں۔ ہماری نظروں میں علامہ محمد اقبال اور محمت عاکف ایک جیسے ہیں۔ آپ ہماری آزادی اور درخشاں مستقبل کے شعراء ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1999ء کے ہولناک زلزلے کے بعد سب سے زیادہ مدد و تعاون پاکستانی بھائیوں نے ہی فراہم کیا تھا جسے ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔

انہوں نے بتایا کہ 2014ء میں صوما ترکی میں پیش آنے والے کان کے المیہ پر پاکستان نے ایک روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے بھی دسمبر 2015ء میں پشاور کے ایک سکول میں بیسیوں معصوم طلباء کی شہادت پر ایک دن کے لئے سرکاری طور پر سوگ منایا تھا۔ ماضی سے چلے آنے والے اور ہر دور میں ترو تازگی کو برقرار رکھنے والے ہمارے یہ مضبوط تعلقات ترکی اور پاکستان کو ایک دوسرے کے لئے خاص بناتے ہیں۔

ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس بھائی چارے اور باہمی تعاون کے ماحول کو دنیا بھر میں مقبول و عام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی میں 15 جولائی کی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد حکومتی انتظامیہ اسمبلی اور عوام کے طور پر پاکستان کے ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہونے والے پہلے ملک ہونے کا میں یہاں پر خصوصی طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ہم نے پاکستان کی قومی اسمبلی کی متفقہ قرارداد کا بڑی احسان مندی کے ساتھ خیر مقدم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ممبران اسمبلی پر مشتمل ایک وفد کا اگست میں ترکی کی حمایت میں دورہ ہماری دہشتگردی کے خلاف جنگ میں حوصلہ افزاء ثابت ہوا ہے۔ پاکستان نے دہشتگرد تنظیم فیتو کے 15 جولائی کے بغاوت کے اقدام کے خلاف اپنے واضح موقف کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری جنگ نجات میں ترک قوم کے ساتھ ہونے کی یاد تازہ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سے اس تعاون پر خوش اور روز آخر تک اس تعاون کو قائم و دائم رکھے۔

انہوں نے پاکستان کی حمایت و تعاون کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں اس وساطت سے یہ واضح کرتا چلوں کہ فیتو نہ صرف ترکی بلکہ سرگرم عمل ہونے والے تمام تر ملکوں کے لئے خطرہ تشکیل دینے والی ایک خونی دہشتگرد تنظیم ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ اس دہشتگرد تنظیم کو پاکستان کو نقصان پہنچانے سے قبل ہی قلیل مدت کے اندر ملیا میٹ کردیا جائے گا۔

ترک صدرنے کہا کہ میں حکومت پاکستان کے اس ضمن میں حالیہ فیصلوں کو بروقت قرار دیتا ہوں اور فیتو کے خلاف ہماری جنگ میں مضبوط تعاون کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس دہشتگرد تنظیم کے خلاف ہمارا باہمی تعلق مزید فروغ پاتے ہوئے جاری رہنا چاہیے۔ رجب طیب اردوان نے کہا کہ القاعدہ اور اس کے ایک عنصر کے طور پر منظر عام پر آنے والی داعش کی طرح کی دہشت گرد تنظیمیں‘ صرف اور صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور دین اسلام کے خلاف جاری جنگ کا آلہ کار بنی ہوئی ہیں۔

مسلمانوں کا خون بہانے کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد نہ رکھنے والے ان قاتل ریوڑوں کو ہمیں قلیل مدت کے اندر مسلم امہ اور دنیا بھر سے کاٹ پھینکنا ہوگا۔ وگرنہ ترکی‘ پاکستان اور نہ ہی امت مسلم میں امن و آشتی آئے گی۔ اگر ہم اس پیارے دین کے پیروکار کے طور پر‘ ہاتھ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ان مسائل کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں تو پھر ہم مسلمانوں کو ذلت کے گھڑے سے بھی باہر نہ نکال سکیں گے۔

دین اسلام توحید و وحدت کا پیامبر ہے۔ کرہ ارض پر اچھائی کا بول بالا کرنے اور بدی کو ختم کرنے کا مقصد رکھنے والے اس دین اعلیٰ سے منسلک ہونے پر ہم سب کو فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے الفاظ میں مسلمان شناخت کا حق حاصل کرنے کی شرط‘ جہاں بھی ہو جس کسی کے بھی طرف سے ہو‘ ہر طرح کے مظالم‘ حق تلفیوں و ناانصافیوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے پر مبنی ہے۔

ہم صرف اور صرف اسی صورت میں رب العالمین کے احکامات کے عین مطابق ایک امت بن سکتے ہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں‘ مسلمانوں کے بیچ نفاق و تفرقہ کے بیج ہوتے ہوئے اپنے لئے زمین ہموار کرنے کے درپے ہیں۔ مسلمانوں کو اس غلامانہ صورتحال سے نجات دلانے کی خاطر اسلامی معاشروں کے درمیان زور پکڑنے والی نسلی تفریق بازی تک تمام تر استحصالی صورتحال کا قلع قمع کرنا لازم و ملزوم ہے۔

اسلامی مملکتوں کو تفرقہ بازی‘ ہزیمت‘ فتنہ‘ نفرت و جہالت کے عام ہونے والے کسی جغرافیہ میں بدلنے کے درپے ہونے والوں کے خلاف ہمیں مل جل کر نبرد آزما ہونا چاہیے جیسا کہ علامہ محمد اقبال نے فرمایا ہے ’’ عمل میں عدم اتحاد ہو تو افکار کی یکجہتی کس کام کی‘‘۔ ترک صدر نے کہا کہ ترکی اور پاکستان خطوں میں اپنی اپنی حیثیت سمیت اپنے قدیم تہذیبی ورثے کی بدولت اس ضمن میں قائدانہ کردار ادا کر سکتے اور دنیا بھر کو اس حوالے سے متحرک کر سکنے کی استعداد کے مالک ملک ہیں۔

ہم اس معاملے میں ہر طرح کے خطرات کو ہاتھ میں لیتے ہوئے کسی بھی جدوجہد و جنگ سے دریغ نہیں کر رہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم خطے میں انسانی بحرانوں‘ دنیا بھر میں ہونے والی حق تلفیوں اور ناانصافیوں کا ہر پلیٹ فارم پر ذکر کرتے ہیں اور حل کی تجاویز پیش کرتے چلے آئے ہیں۔ ہماری جدوجہد محض یہاں تک محدود نہیں بلکہ ہم انسانی و ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ‘ ضرورت پڑنے پر سیاسی و فوجی منصوبوں کی بدولت تمام تر بھائیوں کے شانہ بشانہ ہونے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ہماری یہ جدوجہد کسی ایک مسلمان کے ناحق خون بہنے کے سدباب تک جاری رہے گی۔ ہم پاکستانی بھائیوں کو بھی امت مسلمہ کا راستہ مل جل کر ہموار کرنے کی پیشکش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ اقدار اور قدیم روابط کے مالک‘ علاقائی و بین الاقوامی معاملات میں ایک دوسرے کی حمایت کرنے والی ہماری مملکتوں کے باہمی تعلقات میں حالیہ چند برسوں میں سنجیدہ سطح کے اقدامات کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔

دوطرفہ اعلی سطحی روابط‘ ہمارے باہمی تعلقات کو ہر شعبے میں فروغ دینے‘ پھلنے پھولنے میں معاونت کا وسیلہ ہیں۔ ترک صدر نے کہا کہ اسی طرح بین الاپارلیمانی روابط و مذاکرات بھی دونوں ملکوں کے سیاستدانوں و عوام کے درمیان تعلقات کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ لہذا دونوں مملکتوں کی پارلیمان کے مابین قائم ہونے والے قریبی ڈائیلاگ کو انشاء اللہ آئندہ کے دور میں جاری رکھا جانا چاہیے۔

اسی طریقے سے تجارتی و سرمایہ کاری کے شعبوں میں بھی باہمی تعاون کو تقویت دینا لازمی ہے۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان 2009ء میں قائم کردہ اعلیٰ سطحی سٹریٹجک تعاون کونسل نے باہمی تعلقات کو ایک انسٹیٹیوشنل فریم میں ڈھالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کونسل کی وساطت سے اب تک طے پانے والے 51 معاہدوں اور دستاویز کی بدولت مختصر دورانیہ میں طویل مسافت طے کی ہے۔

تاہم ہمارے نزدیک یہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں اپنے عوام کے لئے روزگار پیدا کرنے والے منصوبوں اور نئی شراکت داری کو مشترکہ طور پر عملی جامہ پہنانا چاہیے۔ ترکی اور پاکستان انتہائی اعلیٰ سطح کی استعداد کے مالک ہیں۔ ان امکانات و مواقع کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لانے کی خاطر کسی قسم کی بھی رکاوٹ کے سامنے ہمیں گھٹنے نہیں ٹیکنے چاہئیں۔ ہمیں سرمایہ کاری کو فروغ‘ بنیادی ڈھانچے میں نئی سرمایہ کاری‘ ہیلتھ و ڈیفنس انڈسٹری کی طرح کے شعبہ جات میں باہمی تعاون کو گہرائی دینے کے زیر مقصد موجودہ امور کو پرعزم طریقے سے جاری رکھنا ہوگا۔

اس کے ساتھ ساتھ ترکی ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں پاکستانی بھائیوں کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ 2010ء میں پیش آنے والی سیلاب کی آفت کی طرح ہماری انسانی امدادی تنظیمیں اور ترک ہلال احمر‘ مستعدی سے طاقت کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ دوسری جانب انڈر گریجویشن‘ ایم اے‘ ایم ایس اور ڈاکٹریٹ کے شعبوں میں ’’ ترکی سکالر شپس‘‘ کی بدولت پاکستانی طالب علموں کے تجربات کو ہمارے ملک تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ نسل کے حصول کے حوالے سے بھی پاکستانی بھائیوں کو مواقع فراہم کئے جارہے ہیں۔

ہم اس نکتے پر ترک اور پاکستانی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مابین آئندہ ماہ دستخط کئے جانے والے اور ہر برس پانچ سو پاکستانی طلباء کو ہمارے ملک میں پی ایچ ڈی کرنے کی سہولت فراہم کرنے کے معاہدے کو قدر و قیمت کا حامل تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترک تعاون و رابطہ ایجنسی تیکا یہاں پر موجود رابطہ دفتر کے ذریعے ترقیاتی امداد کے حوالے سے قیمتی منصوبوں پر برسر پیکار ہے۔

انشاء اللہ تعالیٰ ہر میدان میں ہمارے مشترکہ منصوبے مستقبل میں بھی جاری رہیں گے۔ ہم پاکستان و افغانستان کے اچھے ہمسایہ تعلقات کے طور پر تعاون کو فروغ دینے کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ تعاون خطے میں امن و سلامتی کے قیام کے لئے ضروری ہونے کی حد تک اس محل وقوع میں اقتصادی استعداد اور اہم انفراسٹرکچر کے حامل منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے اعتبار سے لازم و ملزوم ہے۔

ہماری گہری حساسیت کے ساتھ تعاقب کردہ اور تقریباً ستر برسوں سے تصفیہ طلب مسئلہ کشمیر ہمارے ضمیروں کو گائل کرتا آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ ایام میں کشمیر میں پیش آنے والے دردناک واقعات نے اس مسئلے کے حل کی اہمیت کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے ۔ ہم کشمیری بھائیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور کرب سے آگاہ ہیں اور علاقے میں تنائو میں اضافے پر ہمیں گہری تشویش ہے ۔

سیاسی و انسانی پہلوئوں کے حامل اس تنازعے کو حقوق و قوانین کے مطابق حل سے ہمکنار کرنے کی خاطر عالمی برادری کو مزید جدوجہد صرف کرنی چاہیے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ ہم مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق بھارت اور پاکستان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے اس کے جلد حل کے متمنی ہیں۔ ترکی اس معاملے میں ہر ممکن تعاون و کردار کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان خیالات کے ساتھ اپنے خطاب کے اختتام پر میں یہاں پر دی گئی عزت و محبت کا دلی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کو اور تمام تر پاکستانی بھائیوں کو ایک بار پھر سلام محبت و خلوص پیش کرتا ہوں۔ رب الکریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔