پی اے سی کا اسٹیٹ لائف انشورنس اور نیشنل انشورنش کمپنی لمیٹڈ کی کا رگردگی پر عدم اطمینان کا اظہار

تیس سال سے منافع میں چلنے والے ادارے یکایک خسارے میں کیسے چلے گئے ۔ اس حوالے سے آگاہ کیا جائے قومی ہیلتھ انشورنس اسکیم میں چھوٹے صوبوں کو نظر اندازکیا گیا ہے،پبلک اکائونٹس کمیٹی

جمعرات 17 نومبر 2016 16:56

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 نومبر2016ء) پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اسٹیٹ لائف انشورنس اور نیشنل انشورنش کمپنی لمیٹڈ حکام کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تیس سال سے منافع میں چلنے والے ادارے یکایک خسارے میں کیسے چلے گئے ۔ 2011میں ایک ارب ستتر کروڑ کے انتظامی اخراجات 2012میں اٹھاسی کروڑ دس لاکھ پر کیسے آگئے اس حوالے سے آگاہ کیا جائے قومی ہیلتھ انشورنس اسکیم میں چھوٹے صوبوں کو نظر اندازکیا گیا ہے صوبہ پنجاب کو 65فیصد حصہ دیا گیا ہے جبکہ آڈیٹر جنر ل آف پاکستان نے اسٹیٹ لائف کو سفید ہاتھی قراردے دیا ۔

کمیٹی نے اسٹیٹ لائف حکام کوخسارے کے حوالے سے جامع تجزیاتی رپورٹ تیس جنوری تک پیش کرنے کی ہدایات کر دیں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو چیرمین سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا چیئرمین اسٹیٹ لائف انشورنس شعیب میر نے اجلاس کو اسٹیٹ لائف انشورنس کی دس سالہ کارکردگی پر بریفنگ دیتے ہوے کہاکہ گذشتہ دس سالوں کے دوران اسٹیٹ لائف انشورنس کی آمدن 139ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے جبکہ 2015میں36ارب روپے کے کلیم دیے گئے ہیں اس وقت اسٹیٹ لائف انشورنس کے پالیسی ہولڈز 50لاکھ سے زائد ہیںاس کے علاوہ اسٹیٹ لائف انشورنس کے سٹیچری فنڈز527ارب روپے تک پہنچ گئے ہیںجبکہ کمپنی کے مجموعی اثاثہ 571ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں انہوں نے مزید کہاکہ وزیر قومی ہیلتھ انشورنس اسکیم،صحت سہولت پروگرام پر بھی اسٹیٹ لائف انشورنس کے ذریعے ہی عمل کیا جا رہا ہے خورشید شاہ نے سوال کیا کہ اسکیم کے تحت ہسپتالوں اور اضلاح کی نشاندہی کون کرتا ہے اس سلسلے میں چھوٹے صوبوں کو نظر اندازکیا گیا ہے جس پر حکام نے بتایا کہ ہسپتالوں اور اضلاح کی نشاندہی وزارت اور اسٹیٹ لائف نہیں صوبے کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اسٹیٹ لائف میں خسارے کے حوالے سے کمیٹی ارکان نے سوال کیا کہ 2012-13تک منافع میں چلنے والا ادارہ یک دم کیسے خسارے میں چلاگیا ۔جس پر حکام نے وضاحت پیش کی کہ گزشتہ دو تین سال میںجنوبی پنجاب میں ذرعی ترقی میں آنے والی کمی کی وجہ سے اسٹیٹ لائف انشورنس بھی متاثرہوئی ہے ۔آڈیٹر جنرل آ ف پاکستان نے کہا کہ ان سے پوچھا جائے کہ اخراجات کتنے ہیں اسٹیٹ لائف سفید ہاتھی بن چکا ہے ۔

جس پر اسٹیٹ لائف حکام نے بتایاکہ چھ ارب پچاس کروڑ روپے سے زائد سالانہ اخراجات ہیں ۔کمیٹی نے اسٹیٹ لائف حکام کی بریفنگ کو مسترد کرتے ہوئے اسٹیٹ لائف کے خسارے کے حوالے سے جامع تجزیاتی رپورٹ تیس جنوری تک پیش کرنے کی ہدایات کر دیں ۔اجلاس میں این آئی سی ایل کی دس سالہ کارکردگی پربھی بریفنگ دی گئی ۔این آئی سی ایل کے چیئرمین نے کمیٹی کو بتایا کہ 2009میں اخراجات اسی کروڑ نوے لاکھ سے بڑھ کر 2011میں ایک ارب ستتر کروڑ روپے تک جاپہنچے ہیں ۔

این آئی سی ایل میں خسارے کی وجہ بدعنوانی مالی بے قاعدگی اور بے جا پراپرٹی کی خریداری ہے ۔چیئرمین نے بتایا کہ 2012میں انتظامی اخراجات کمی کے بعد اٹھاسی کروڑ دس لاکھ پر آگئے جس پر کمیٹی کے رکن سید نوید قمرنے استفارکیا کہ ایک سال میں اخراجات کمی کی وجہ کیا ہے حکام جواب دینے سے قاصر رہے جس پر کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں این آئی سی ایل سے مفصل رپورٹ طلب کرلی ۔۔شیزاد

متعلقہ عنوان :