پاکستان اور ترکی کو دہشتگردی جیسے یکساں مسائل کا سامنا ہے،القاعدہ،داعش،فیتو اور دیگر دہشتگرد تنظیمیں ترکی اور پاکستان سمیت پورے عالم اسلام اور دنیا کیلئے خطرے کا باعث ہیں، دونوں ملک مل کر دہشتگردی کا خاتمہ کریں گے،مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم او رانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت تشویش ہے،کشمیر کی حالیہ صورتحال سے اس مسئلے کی فوری حل کی اہمیت اجاگر ہوئی ہے، مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فوری حل ہونا چاہئے ،ترکی اوآئی سی کے سیکرٹری جنرل کے طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرے گا،ترکی دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تعاون کیلئے تیار ہے ، اللہ تعالیٰ پاکستان اور ترکی کے درمیان تعاون کو تاقیامت قائم رکھے ،پاکستان اور افغانستان کے دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں،خطے کی ترقی کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل اور پاک افغان خوشگوار تعلقات ضروری ہیں،دہشتگرد نفاق کے بیج بورہے ہیں،،اسلامی ملکوں کو فتنہ اور نفرت کے خلاف مل کر نبرآزما ہونا چاہیے،ترکی اور پاکستان دہشتگردی کے خلاف قائدانہ کردار ادا کرسکتے ہیں ، دہشتگرد تنظیم کو پاکستان کو نقصان پہنچانے سے قبل ہی قلیل مدت کے اندر ملیامیٹ کردیا جائیگا، حکومت پاکستان کو حالیہ فیصلوں کو بروقت قراردیتا ہوں ، فیتوکے خلاف ہماری جنگ میں مضبوط تعاون کا شکریہ اداکرتاہوں، اس دہشتگرد تنظیم کے خلاف ہمارا باہمی تعاون مزید فروغ پاتے ہوئے جاری و ساری رہنا چاہیے،1999کے ہولناک زلزلے کے بعد سب سے زیادہ مدد و تعاون پاکستانی بھائیوں نے ہی فراہم کیا ، اسے ہم کبھی بھی نہیں بھولے اور نہ ہی بھولیں گے،2014میں صوما،ترکی میں پیش آنے والے کان کے المیہ پر پاکستان نے ایک روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا تھا،ہم نے بھی اے پی ایس پر مذموم دہشتگرد حملے کے دکھ میں ایک دن کیلئے سرکاری طورپر سوگ منایا تھا

ترک صدر طیب رجب اردوان کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کامکمل متن

جمعرات 17 نومبر 2016 22:16

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 نومبر2016ء) ترک صدر طیب رجب اردوان نے کہا ہے کہ پاکستان اور ترکی دوستی اور نظریے کے رشتے میں جڑے ہیں،دونوں ملکوں کو دہشتگردی جیسے یکساں مسائل کا سامنا ہے،القاعدہ،داعش،فیتو اور دیگر دہشتگرد تنظیمیں نہ صرف ترکی اور پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام اور دنیا کیلئے خطرے کا باعث ہیں،ہمارا عزم ہے کہ دونوں ملک مل کر دہشتگردی کا خاتمہ کریں گے،مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم او رانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ترکی کو سخت تشویش ہے،کشمیر کی حالیہ صورتحال سے اس مسئلے کی فوری حل کی اہمیت اجاگر ہوئی ہے، مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فوری حل ہونا چاہئے ،ترکی اوآئی سی کے سیکرٹری جنرل کے طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرے گا،ترکی دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تعاون کیلئے تیار ہے،دعا ہے اللہ تعالیٰ پاکستان اور ترکی کے درمیان تعاون کو قیامت تک قائم رکھے ،پاکستان اور افغانستان کے دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں،خطے کی ترقی کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل اور پاک افغان خوشگوار تعلقات ضروری ہیں،دہشتگرد نفاق کے بیج بورہے ہیں،،ان کا خاتمہ ضروری ہے،ہمارے دین میں نفرت اور تفریق کا کوئی وجود نہیں اسلام افضل دین ہے،دہشتگرد ہمارے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں،اسلامی ملکوں کو فتنہ اور نفرت کے خلاف مل کر نبرآذما ہونا چاہیے،ترکی اور پاکستان دہشتگردی کے خلاف قائدانہ کردار ادا کرسکتے ہیں،ہم اس کیلئے کسی بھی جنگ سے دریغ نہیں کریں گے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ میں آپ سب کو اپنی ،میرے وفد اور ترک قوم کی جانب سے دلی جذبات،احترام و خلوص بھرا سلام پیش کرتا ہوں،میں ترکی سے آپ سب کیلئے محبتیں سمیٹتے ہوئے آیا ہوں،میں ایک بار پھر،تمام ترپاکستانی بھائیوں سے اپنی محبت احترام اور خلوص کا اظہار کرتا ہوں،سن2012کے دورہ پاکستان کے دوران بھی میں نے قومی اسمبلی وسینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی تھی۔

تقریباً ساڑھے چار سال بعد قومی ارادے و حاکمیت کی علامت ہونے والے اس ادارے کی چھت تلے ایک بار پھر آپ کے ساتھ یکجا ہونا میرے لئے انتہائی مسرت کا موقع ہے،پاکستان نے اپنی اقدار کے تحفظ کے ساتھ ڈیموکریسی پر عمل درآمد کو کامیابی کے ساتھ سرانجام دے سکنے کا مظاہر کرتے ہوئے مسلم امہ کیلئے اہم مثال تشکیل دی ہے۔میں اس احسن کامیابی پر آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں،ترکی اور پاکستان کے تعلقات کسی دومملکتوں کے مابین سفارتی رابطے کی سطح سے کہیں ہٹ کر خصوصیات کے مالک ہیں،ہم صرف الفاظ تک ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں دوبرادر ملک ہیں،ہمارے عوام کے درمیان اس قدر گہری دوستی و محبت کا ناطہ پایا جاتا ہے کہ ہم پاکستانی بھائیوں کی خوشی و غمی میں برابر کے شریگ ہیں،ہم جانتے ہیں کہ آپ کے جذبات بھی اس سے یکسانیت رکھتے ہیں،ہماری مملکتوں و اقوا م نے تاریخ بھر کے دوران اسی مفاہمت کا کھل کر مظاہرہ کیا ہے،مولانا جلیل الدین رومی وسیع معنوں مین اسی جغرافیہ پر جنم پانے والے،اپنے فیض و علم کو اناطولیہ سے دنیا بھر تک پھیلانے والے ایک مشترکہ اثاثہ و اقدار ہیں،زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں،محض گذشتہ ایک صدی کی پیش رفت کا جائزہ لینے سے ہماری باہمی دوستی کی گہرائی کا اندازا کیاجاسکتا ہے،معرکہ چناق قلعے کے دوران ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی بھائیوں کے انتہائی کٹھن حالات میں ہماری مدد کو پہنچنے کوہم نے نہ تو کبھی فراموش کیا ہے اور نہ ہی کریں گے،ہماری جنگ نجات کے دوران بھی آپ کی امداد و تعاون ہمیشہ ہماری یادداشتوں میں زندہ و تابندہ رہنا ہے،آج کے جمہوریہ ترکی کی بنیادوں میں بلقانی جنگ کے دوران سلطنت عثمانیہ کی مدد کو دوڑے چلے آنے والے معرکے چناق قلعے اور بعدازاں جنگ نجات میں شرکت کرنے والے اعلان جمہوریت کے بعد بھی ہمارے وطن کیلئے وسیع پیمانے کی خدمات ادا کرنے والے عبدالرحمان پشاوری کی طرح کے متعدد پاکستانی ہیروں کی محنت و مشقت کارفرما ہے،ایسا ہے کہ عبدالرحمان پشاوری کو ان کی والدہ محترمہ نے ’’ اب گھر لوٹ آنے کا ‘‘ پیغام بھیجا تھا جس پر ہمارے بھائی نے یہ جواب دیا تھا کہ انا طولیہ پر دشمن کا قبضہ ہونے کے وقت میں کیسے واپس لوٹ سکتا ہوں،ہماری نظروں میں محمد اقبال ار محمت عاکف ایک جیسے ہیں،آپ ہماری آزادی و درخشاں مستقبل کے شعراء ہیں،سن1999کے ہولناک زلزلے کے بعد سب سے زیادہ مدد و تعاون پاکستانی بھائیوں نے ہی فراہم کیا تھا جسے ہم کبھی بھی نہیں بھولے اور نہ ہی بھولیں گے،2014میں صوما،ترکی میں پیش آنے والے کان کے المیہ پر پاکستان نے ایک روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا تھا،ہم نے بھی دسمبر2014میں پشاور کے ایک اسکول میں بیسیوں معصوم طلباء کی ہلاکت کا موجب بننے والے مذموم دہشتگرد حملے کے دکھ میں ایک دن کیلئے سرکاری طورپر سوگ منایا تھا،ماضی سے چلے آنے والے اور ہر دور میں اپنی تروتازگی کو برقرار رکھنے والے ہمارے یہ مضبوط تعلقات ترکی اور پاکستان کو ایک دوسرے کیلئے خاص بناتے ہیں،ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس بھائی چارے و باہمی تعاون کے ماحول کو دنیا بھر میں مقبول وعام کریں گے۔

ترکی میں پندرہ جولائی کی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد حکومتی انتظامیہ،اسمبلی اور عوام کے طور پر پاکستان کے ہمارے شانہ بشانہ ہونے والے پہلے ملک ہونے کا میں یہاں پر خصوصی طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں،ہم نے قومی اسمبلی کی متفقہ قرارداد کا بڑی ممنونیت کے کے ساتھ خیر مقدم کیا ہے،ممبران اسمبلی پر مشتمل ایک وسیع وفد کا ماہ اگست میں ترکی کی حمایت میں دورہ ہماری دہشتگردی کے خلاف جنگ میں حوصلہ کن ثابت ہوا ہے،پاکستان نے دہشتگرد تنظیم فیتو کے فاعل ہونے والے پندرہ جولائی کے بغاوت کے اقدام کے خلاف اپنے واضح موقف کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری جنگ نجات میں ترک قوم کے ساتھ ہونے کی یاد تازہ کی ہے،اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو اور ہمارے اس تعاون کو روز آخر تک قائم و دائم رکھے،آپ کی حمایت و تعاون کا ایک بار پھر شکرگزار ہوں،میں اس وساطت سے ایک بار پھر واضح کرتا چلوں کہ فیتونہ صرف ترکی بلکہ سرگرم عمل ہونے والے تمام ترملکوں کیلئے خطرہ تشکیل دینے والی ایک خونی دہشتگرد تنظیم ہے،مجھے یقین کامل ہے کہ اس دہشتگرد تنظیم کو پاکستان کو نقصان پہنچانے سے قبل ہی قلیل مدت کے اندر ملیامیٹ کردیا جائیگا،میں حکومت پاکستان کو اس ضمن میں حالیہ فیصلوں کو بروقت قراردیتا ہوں اور فیتوکے خلاف ہماری جنگ میں مضبوط تعاون کا شکریہ اداکرتاہوں،میں سمجھتا ہوں کہ اس دہشتگرد تنظیم کے خلاف ہمارا باہمی تعاون مزید فروغ پاتے ہوئے جاری و ساری رہنا چاہیے۔

القاعدہ اور اس کے ایک عنصر کے طور پر منظر عام پر آنے والی داعش کی طرح دہشت گرد تنظیمیں ، صرف اور صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچا ریہ ہیں اور دین اسلام کے خلاف جاری جنگ کا آلہ کار بنی ہوئی ہیں ۔ مسلمانوں کا خون بہانے کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد نہ رکھنے والے ان قاتل ریوڑوں کو ہمیں قلیل مدت کے اندر مسلم امہ اور دنیا بھر سے کاٹ پھینکنا ہو گا وگرنہ ، ترکی ، پاکستان اور نہ ہی امت مسلم میں امن وآتشی آئے گی ۔

اگر ہم اس پیار دین کے پیروکار کے طور پر ہاتھ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ان مسائل کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں تو پھر ہم مسلمانوں کو ذلت کے گھڑے سے بھی باہر نہ نکال سکیں گے ۔ دین اسلام توحید ووحدت کا پیامبر ہے ۔ کرہ ارض پر اچھائی کا بول بالا کرنے اور بدی کو ختم کرنے کا مقصد رکھنے والے اس دین اعلیٰ سے منسلک ہونے پر ہم سب کو فخر ہے ۔ دوسرے الفاظ میں مسلمان شناخت کا حق حاصل کرنے کی شرط ، جہاں بھی ہو، جس کسی کے بھی طرف سے ہو، ہر طرح کے مظالم ، حق تلفیوں ونا انصافیوںکے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے پر مبنی ہے ۔

ہم صرف اور صرف اسی صورت میں رب العالمین کے احکامات کے عین مطابق ایک امت بن سکتے ہیں ۔ دہشت گرد تنظیمیں ، مسلمانوں کے بیچ نفاق وتفرقہ کے بیج ہوتے ہوئے اپنے لئے زمین ہموار کرنے کے درپے ہیں ۔ مسلمانوں کو اس غلامانہ صورتحال سے نجات دلانے کی خاطر اسلامی معاشروں کے درمیان زور پکڑنے والی نسلی تفریق بازی تک تمام تر استحصالی صورتحال کا قلع قمع کرنا لازم وملزوم ہے ۔

اسلامی مملکتوں کو تفرقہ بازی ، ہزیمت ، نفت وجہالت کے عام ہونے والء کسی جغرافیہ میں بدلنے کے درپے ہونے والوں کے خلاف ہمیںمل جل کر نبردآزما ہونا چاہیے ۔ جیسا کہ علامہ محمد اقبال نے فرمایا ہے، مفہوم عرض ہے ۔عمل میں عدم اتحاد ہو تو افکار کی یکجہتی کس کام کی۔ترکی اور پاکستان ،خطوں میں اپنی اپنی حیثیت سمیت اپنے قدیم تہذیبی ورثے کی بدولت اس ضمن میں قائدانہ کردار ادا کرسکتے ہیں اور دنیا بھر کو اس حوالے سے متحرک کرسکنے کی استعداد کے مالک ملک ہیں ۔

ہم اس معاملے میں ہر طرح کے خطرات کو ہاتھ میں لیتے ہوئے کسی بھی جدوجہد وجنگ سے نہ دریغ نہیں کر رہے ۔ ہم خطے میں انسانی بحرانوں ، دنیا بھر میں ہونے والی حق تلفیوں اور ناانصافیوں کا ہر پلیٹ فارم پر نکر کرتے ہیں اور حل کی تجاویز پیش کرتے چلے آئے ہیں ۔ ہماری جدوجہد محض یہاں تک محدود نہیں بلکہ انسانی و ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ضرورت پڑنے پر سیاسی وفوجی منصوبوں کی بدولت تمام تر بھائیوں کے شانہ بشانہ ہونے کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔

ہماری یہ جدوجہد کسی واحد مسلمان کے غیر حق بجانب طور پر خون بہنے کا سدباب کرنے تک جاری رہے گی ۔ہم ، پاکستانی بھائیوں کو بھی امت مسلمہ کا راستہ مل جل کر ہموار کرنے کی پیشکش کرتے ہیں ۔ مکرمی ومحترمی اسپیکر وچیئرمین ، معرز ممبران اسمبلی، مشترکہ اقدار اور قدیم روابط کے مالک ، علاقئی وبین الاقوامی معاملات میں ایک دوسرے کی حمایت کرنے والی ہماری مملکتوں کے باہمی تعلقات میں حالیہ چند برسوں میں سنجیدہ سطح کے اقدامات کا مشاہدہ ہو رہا ہے ۔

دوطرفہ اعلیٰ سطحی روابط ہمارے باہمی تعلقات کو ہر شعبے میں فروغ دینے ، پھلنے پھولنے میں معاونت کا وسیلہ ہیں ، اسی طرح بین الاپارلیمانی روابط ومذاکرات بھی دونوں ملکوں کے سیاستدانوں وعوام کے درمیان تعلقات کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ لہذا دونوں مملکتوں کی پارلیمان کے مابین قائم ہونے والی قریبی ڈائیلاگ کو انشاء اللہ آئندہ دور میں جاری رکھنا چاہیے۔

اسی طریقے سے تجارتی وسرمایہ کاری کے شعبوں میں بھی باہمی تعاون کو تقویت دینا لازمی ہے ۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان 2009میں قائم کردہ اعلیٰ سطحی سٹریٹجک تعاون کونسل نے باہمی تعلقات کو ایک انسٹیٹوشنل فریم ورک میں ڈھالا ہے ۔ہم نے اس کونسل کو وساطت سے اب تک طے پانے والے اکیاون معاہدوں اور دستاویز کی بدولت مختصر دورانیہ میں طویل مسافت طے کی ہے تاہم ہمارے نزدیک یہ کافی نہیں ۔

ہمیں ، اپنے عوام کے لئے روزگار پیدا کرنے والے منصوبوں اور نئی شراکت داری کو مشترکہ طور پر عملی جامہ پہنانا چاہیے۔ ترکی اور پاکستان انتہائی اعلیٰ سطح کی استعداد کے مالک ہیں ۔ ان امکانات و مواقع کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لانے کی خاطر کسی قسم کی بھی رکاوٹ کے سامنے ہمیں گھٹنے نہیں ٹیکنے چاہیئں۔ ہمیں سرمایہ کاری کو فروغ ، بنیادی ڈھانچے میں نئی سرمایہ کاری ، ہیلتھ وڈیفنس انڈسٹری کی طرح کے شعبہ جات میں باہمی تعاون کو گہرائی دینے کے زیر مقصد موجودہ امور کو پر عزم طریقے سے جاری رکھنا ہوگا۔

اس کے ساتھ ساتھ ترکی ، ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں پاکستانی بھائیوں کو مدد فراہم کر رہا ہے ۔ سن2010میں پیش آنے والی سیلاب کی آفت کی طرح ، ہماری انسانی امدادی تنظیمیں اور ترک ہلاک احمر، سرعت سے پاکستان کی مدد کو دوڑتے ہوئے بین المملکتی گہرے تعاون کی طاقت کا مظاہرہ کر چکے ہیں ۔ دوسری جانب ، انڈر گریجویشن ، ایم اے ، ایم ایس اور ڈاکٹریٹ کے شعبوں میں ’’ٹرکی اسکالرشپش‘‘ کی بدولت پاکستانی طالب علموں کے تجربات کو ہمارے ملک تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ نسل کے حصول کے حوالے سے بھی پاکستانی بھائیوں کو مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں ۔

میں ان نکتے پر ترک اور پاکستانی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مابین آئندہ ماہ دستخط کئے جانے والے اور ہر برس پانچ سو پاکستانی طالب علموں کو ہمارے ملک میں پی ایچ ڈی کرنے کی سہولت فراہم کرنے پر مبنی ضابطہ مطابقت کو قدرقیمت کا حامل تصورکرتاہوں ۔ ہم مسئلہ کشمیر کو علاقائی عوام کی خواہشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارت اور پاکستان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے جل سے ہمکنارکئے جانے کے متمنی ہیں ۔

ترکی ، اس معاملے میں ہر ممکنہ تعاون وجدوجہد کیلئے تیار ہے ۔ ان خیالات کے ساتھ اپنے الفاظ کو نکتہ پذیر کرتے وقت مجھے یہاں پر دی گئی عزت ومحبت کو دلی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ آپ کو اور تمام تر پاکستان بھائیوں کو ایک بار پھر سلام محبت و خلوص پیش کرتا ہوں ۔ رب الکریم ہم سب کا حامی وناصر ہو۔پاکستان زندہ باد،ترکی پائندہ باد۔(خ م+م ن)