سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا نے ایوان کی کارروائی کے دوران مقامی روزنامے میں شائع خبر کے حوالے سے اپنی جانب سے ذاتی وضاحت پیش کردی

بدھ 23 نومبر 2016 22:49

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 نومبر2016ء) سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا نے بدھ کو ایوان کی کارروائی کے دوران ایک مقامی اردو روزنامے میں شائع ہونے والی اس خبر کے حوالے سے اپنی جانب سے ذاتی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی قبضے کے سرکاری گھر پر نہیں رہ رہیں، بلکہ انہیں سرکاری رہائش گاہ میں قیام کرنے کا استحقاق حاصل ہے اور اسی استحقاق کے مطابق ایک سرکاری بنگلے میں قیام پذیر ہیں۔

ڈپٹی اسپیکر کا کہنا تھا کہ مقامی اردو روزنامے نے اس شہ سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع کی ہے کہ ’’ 311 گھروں پر قبضے کا انکشاف ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اس خبر میں میرا نام بھی شائع کر دیا گیا ہے ، جو حقیقت کہ برعکس ہے اور اچھی صحافتی اقدار کے خلاف ہے۔ سندھ کے وزیر بلدیات جام خان شورو نے کہا ہے کہ کراچی میں بڑی تیزی کے ساتھ بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں اور آتش زدگی یا کسی دوسری ناگہانی سے نمٹنے کے لیے محکمہ بلدیات نے اسنارکل خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

اگر کوئی کم قیمت میں اسنارکل دلوا سکتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ بولی میں شرکت کرلے۔ اس طرح سندھ حکومت کو پیسوں کی بچت ہو جائے گی۔ انہوں نے یہ بات بدھ کو سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن کے ایک توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں کہی۔ خواجہ اظہار کا کہنا تھا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق محکمہ بلدیات کے ایم سی کے لیے 57 کروڑ روپے مالیت کی اسنارکل خرید رہا ہے۔

اس ضمن میں 27 اکتوبر 2016 کو ٹینڈر بھی ہو چکا ہے اور 30 تاریخ کو اس حوالے سے بولی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے میرے جو خدشات ہیں اگر وہ درست ہیں تو وزیر بلدیات اور وزیر اعلیٰ سندھ اس کا نوٹس لے کر نیب ، اینٹی کرپشن اور پولیس کے ذریعہ تحقیقات کرائیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو مجھے مطمئن کر دیا جائے قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ جو نئی اسنارکل خریدی جا رہی ہے ، وہ 40 منزل کی بلندی تک جا کر آتشزدگی کی صورت میں آگ بجھا سکتی ہے جبکہ کراچی میں اس وقت 15 سے 20 منزل سے زیادہ کتنی عمارتیں ہیں۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ 104 میٹر طوالت والی اس اسنارکل کا وزن 70 ٹن ہے اور اسے 57 کروڑ روپے میں خریدا جا رہا ہے۔ خواجہ اظہار الحسن کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ھوالے سے 30 کروڑ روپے کی زائد رقم کا ہیر پھر ہے۔ لاہور میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس نوعیت کی اسنارکل 22 کروڑ روپے میں خریدی ہے۔ اگر کسٹم ڈیوٹی اور دوسرے اخراجات بھی شامل کر لیے جائیں تو اس کی قیمت 27 کروڑ سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ کے ایم سی کے پاس 45 میٹر والی پہلے ہی دو اسنارکل ناکارہ حالات میں پڑی ہیں۔ ہمارے پاس ساڑھے تین کروڑ روپے نہیں کہ ان کی مرمت کرا لی جائے۔ خواجہ اظہار نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن جب بلند عمارتیں بنا لیں تو پھر ان کی خدمت کا سوچا جائے۔ اس وقت کروڑوں روپے کی جو اسنارکل خریدی جا رہی ہیں وہ صرف آئی آئی چندریگر روڈ پر گھومے گی۔

اس موقع پر وزیر بلدیات جام خان شورو نے کہا کہ خواجہ صاحب کے پاس اگر کوئی بندہ ہے تو وہ کم بولی لگا کر اسنارکل دلوا دے۔ حکومت سندھ کو پیسوں کی بت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ 45 میٹر طوالت والی اسنارکل اس لیے خریدی جا رہی ہے کہ شہر میں تیزی کے ساتھ بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر بلدیات نے یاد دلایا کہ گذشتہ رمضان میں کلفٹن کے علاقے میں ایک بلند عمارت میں آگ لگ گئی تھی اور آٹھویں منزل پر دو گارڈ جل کر مر گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کے ایم سی کو کبھی یہ زحمت نہ ہوئی کہ وہ اپنی خراب اسنارکل کی مرمت کرا لیتے۔ انہوں نے کہا کہ بلندی پر جا کر کام کرنے والی جس اسنارکل کا ذکر کیا جا رہا ہے ، وہ ضروری ہے کہ وہ 70 میٹر یا 50 میٹر پر جا کر کام کرے۔ وہ اس سے کم بلندی والی عمارتوں کے لیے بھی کارآمد ثابت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ شکر کریں کہ کلفٹن جیسا آتشزدگی کا واقعہ ایک کمرشل بلڈنگ میں پیش آیا تھا ھاگر خدا نخواستہ یہ واقعہ کسی رہائشی بلاک میں پیش آتا تو زیادہ جانی نقصان کا اندیشہ تھا۔

مستقبل میں اس نوعیت کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم بلندی پر کام کرنے والی اسنارکل خرید رہے ہیں ، جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) کے سید امیر حیدر شاہ شیرازی کے ایک توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں وزیر ورکس اینڈ سروسز امداد پتافی نے کہا کہ سندھ میں 53 ہزار کلو میٹر رقبے پر سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ ان کی حفاظت اور دیکھ بھال کرنا صرف حکومت کی نہیں لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے اور زیادہ مقامات پر ٹول لگائے بغیر یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام خستہ حال سڑکوں کی حالت سدھار دی جائے۔

امیر حیدر شاہ شیرازی نے اپنے توجہ دلاؤ نوٹس میں میرپور بٹورو تا دڑو اور بھانو روڈ کی خستہ حالی کی شکایت کی تھی۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ سندھ کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ روڈ اور راستوں کی اونر شپ بھی لیں۔ ایم کیو ایم کی خاتون رکن ناہید بیگم کے توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں وزیر پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ حکومت سندھ کا محکمہ جنگلی حیاتیات نومبر سے لے کر جنوری تک شکار کے سیزن میں پرمٹ کے ذریعہ مخصوص علاقوں میں پرندوں کے شکار کی اجازت دیتا ہے اور جو لوگ خلاف ورزی کرتے ہیں انہیں نہ صرف گرفتار کیا جاتا ہے، بلکہ قانون کے مطابق کارروائی بھی کی جاتی ہے۔

ناہید بیگم کا کہنا تھا کہ ہر سال سائبیریا سے نقل مکانی کرنے کے سندھ کی جھیلوں اور آبی ذخائر پر آنے والے آبی پرندوں کا ملکی اور غیر ملکی شخصیات کی جانب سے شکار کیا جا رہا ہے ، جن سے ان کی نسل معدوم ہونے کا خطرہ ہے اور نقل مکانی کرکے آنے والے پرندوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ سائیبریا سے شدید سرد موسم کے باعث بہت سے آبی پرندے نقل مکانی کرکے سندھ کی جھیلوں اور آبی ذخائر پر بسیرا کرتے ہیں محکمہ وائلڈ لائف پرمٹ کے ذریعہ محدود پیمانے پر ان کے شکار کی اجازت بھی دیتا ہے۔

پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی خرم شیر زمان کے ایک توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو نے کہا کہ محکمہ بلدیات پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی مدد سے وقتاً فوقتاً تجاوزات کے خلاف آپریشن کرتا رہتا ہے۔ 15 روز پہلے بھی برنس روڈ پر ایک ایسا آپریشن کیا گیا تھا۔ اب منتخب بلدیاتی نمائندوں نے بھی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔

ان کی مشاورت کے ساتھ صدر ، بوہری بازار اور شہر کے دوسرے علاقوں میں اس نوعیت کی تجاوزات کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جن پتھارے داروں کو کسی روڈ سے ہٹایا جاتا ہے تو پھر وہ کسی دوسرے مقام پر منتقل ہو جاتے ہیں، وزیر بلدیات نے کہا کہ پتھارے داروں کا بھی یہ مطالبہ ہے کہ انہیں روزگار کمانے کے لیے متبادل جگہ فراہم کی جائے، حکومت سندھ ان کے لیے علیحدہ مارکیٹ بنانے کی تجویز پر غور کر رہی ہے ، جس طرح ٹرک اسٹینڈ کو ہٹانے کا منصوبہ ہے، انہوں نے کہا کہ کراچی میں 14,15 ایسی مارکیٹیں ہیں ، جن کے باعث شہر میں سڑکوں پر ٹریفک جام ہوتا ہے، خرم شیر زمان نے اپنے توجہ دلاؤ نوٹس میں صدر تا برنس روڈ غیر قانونی تجاوزات اور اس کے باعث راہگیروں کو پیش آنے والی دشواری کی نشاندہی کی تھی۔

متعلقہ عنوان :