گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں ناکارہ بحری جہاز پر آتشزدگی کا واقعہ تمام متعلقہ اداروں کی نااہلی کی وجہ سے پیش آیا،نسرین جلیل

جاں بحق ہونیوالے افراد کے لواحقین کو معاوضے کی بروقت ادائیگی کی جائے، بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو بااختیار اور فعال کیا جائے،چیئرپرسن فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق

منگل 29 نومبر 2016 17:11

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 نومبر2016ء) سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل نے کہا ہے کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں ناکارہ بحری جہاز پر آتشزدگی کا واقعہ تمام متعلقہ اداروں کی نااہلی کی وجہ سے پیش آیا ہے، جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو معاوضے کی بروقت ادائیگی کی جائے، بلوچستان ڈولپمنٹ اتھارٹی کو بااختیار اور فعال کیا جائے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو چیف سیکریٹری سندھ آفس میں گڈانی حادثے کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں سینیٹر فرحت اللہ بابر، سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، سینیٹر محسن خان لغاری اور سینیٹر ناصر محمد نے شرکت کی جبکہ اس موقع پر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر لسبیلہ، چیئرمین بلوچستان ڈولپمنٹ اتھارٹی بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

اجلاس میں بلوچستان حکومت کی طرف سے گڈانی میں ناکارہ بحری جہاز پر لگنے والی آگ کے حوالے سے کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ نسرین جلیل نے کہا کہ ہمارے یہاں آنے کا مقصد جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کی داد رسی کرنا اور واقعہ کے اصل حقائق تک رسائی حاصل کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ تمام متعلقہ اداروں کی نااہلی کے باعث پیش آیا ہے، کسی ایک فرد یا ادارے کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس حادثے میں جاں بحق ہونے والے 26 افراد کے لواحقین میں سے صرف 4 افراد کے لواحقین کو معاوضہ ادا کیا گیا ہے جو قابل تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو بروقت معاوضے کی ادائیگی ہونی چاہئے اور وفاقی حکومت بھی لواحقین کی داد رسی کرے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ڈولپمنٹ اتھارٹی کو مزید اختیارات دے کر فعال کیا جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ گڈانی میں فائر بریگیڈ آفس، اسکول اور ہسپتال قائم ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ شپ بریکنگ یارڈ پر بند کام فوری شروع کیا جائے تاکہ مزدروں کو روزگار میسر آسکے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گڈانی میں 135 پلاٹس میں صرف 34 پلاٹس بلوچستان ڈولپمنٹ اتھارٹی کے پاس ہیں باقی پلاٹس پر بااثر افراد نے لیز حاصل کر لئے ہیں حالانکہ سپریم کورٹ اس حوالے سے اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئے۔ قبل ازیں اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے بلوچستان کے سیکریٹری فنانس اکبر درانی نے بتایا کہ یہ حادثہ مختلف کوتاہیوں کی وجہ سے پیش آیا۔ انہوں نے کہا کہ جہاز کے مالک نے این او سی حاصل کئے بغیر اس پر بریکنگ کا کام شروع کر دیا، حالانکہ یہ جہاز بہت بڑا تھا اس میں ایک لاکھ 50 ہزار ٹن آئل لوڈ کرنے کی صلاحیت تھی، واقعہ کے وقت اس میں 200 ٹن سے زائد آئل موجود تھا اور اس میں موجود گیسز کا اخراج بھی نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا جہاز کی بریکنگ کرنے والا ٹھیکیدار بھی ناتجربہ کار تھا۔ انہوں نے کہا کہ فائر فائٹر اور ریسکیو کی سہولیات موقع پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے آگ پر فوری طور پر قابو نہیں پایا گیا کیونکہ شپ یارڈ کے قریب کوئی فائر اسٹیشن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ میں مجموعی طور پر 26 مزدور جاں بحق ہوئے جبکہ 4 افراد ابھی تک لاپتہ ہیں، جاں بحق ہونے والے افراد میں سے 25 افراد کی میتیں ان کے ورثاء کے حوالے کر دی گئی ہیں، ایک لاوارث میت ابھی تک ایدھی کے سرد خانے میں موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ واقعہ میں 57 افراد زخمی ہوئے جن میں سے 50 کو طبی امداد کے بعد رخصت کر دیا گیا جبکہ 7 افراد ابھی تک زیر علاج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب جہاز کو بریکنگ یارڈ پر لایا گیا تو کسٹم حکام نے اس کو چیک نہیں کیا۔

متعلقہ عنوان :