ہمارے ہاں جب پڑھایا جاتا ہے وہ زمانے سے بہت پیچھے ہے، ان دنوں جو فلسفہ لکھا جارہا ہے اس کو اپنے ماضی کے فلسفہ سے اچھا لکھا جارہا ہے

کشور ناہید کانویں عالمی اردو کانفرنس سے خطاب

اتوار 4 دسمبر 2016 23:00

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 دسمبر2016ء) شاعر وادیبہ کشور ناہید نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں جب پڑھایا جاتا ہے وہ زمانے سے بہت پیچھے ہے ان دنوں جو فلسفہ لکھا جارہا ہے اس کو اپنے ماضی کے فلسفہ سے ملاکر دیکھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آج بھی اچھا فلسفہ لکھا جارہا ہے۔آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں نویں عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے روز بعنوان نئی دنیا اور آج کے ادبی تقاضے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر زاہدہ حنا،سعادت سعید، ناصر عباس نیئر، عذرا عباس، انوار احمدنے اپنے اپنے مضمون پڑھے۔ جبکہ نظامت کے فرائض احمد شاہ نے انجام دیئے۔ شاعر وادیبہ کشور ناہید نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں فلسفہ جو لکھا جارہا ہے ماضی کے فلسفے سے بہتر ہے اور میں چاہتی ہوں کہ ہمارے جو لکھنے والے ہیں فلسفہ کو بھی ضرور پڑھیں جو زمانے میں ہو رہا ہے اس کو لکھنا چاہئے انہوں نے بتایا کہ کولمبیا میں ہمارا وفد گیا تھا حکومت کی لگائی گئی پابندی کے باوجود وہاں کے لوگوں نے ہمیں وہ نظم پڑھ کر سنائی جس کو سننے کے بعد اندازا لگایا کہ وہ بات بھی کہنی چاہئے جو نہیں کہی جاتی ہو۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر انوار احمد نے اپنا مضمون نئی دنیامیں ثقافتی شعور پر با ت کرتے ہوئے کہاکہ قوموں کی تشکیل ماضی سے ہوتی ہے ماضی ہماری یادداشت ہوتا ہے ہمیں ہیروز اپنے ہونے چاہئیں اگر سعودی عرب، ترکی اورافغانستان نے اپنے ہیروز کے نام واپس مانگ لئے تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں رہے گا۔ ہمارے خطے کی تاریخ 8ہزار سال پرانی ہے جس کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔

تاریخ بڑی سفاک ہوتی ہے جس میں ہونے والے واقعات آنے والی نسلوں کے لئے کارآمدہوتے ہیں۔ زاہدہ حنا نے اپنے مضمون ادبی شناخت اور جدید دنیا میں کہاکہ سندھ میں شراب خانوں میں تالے لگے ہوئے ہیں لوگ تالوں کو دیکھ دیکھ کر رو رہے ہیں ۔ مجھ سے پوچھا جاتاہے تمہارا مذہب کیا ہے جبکہ لکھنے والوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، پریم چند، سحر لودھیانوی نے بہت کچھ لکھا لیکن ان کو بھی مذہب کے نام پر نشانہ بنایا گیا مجھے خوف آتا ہے کہ ہماری پہچان فرقوں سے نہ کی جانے لگے،ہمارے ملک میں پولیس خواجہ سراں کوسرِعام سڑک پر مارتی ہے۔

ہماری ادبی شناخت کیا ہے ابھی تک ہم اس کو ڈھونڈ رہے ہیں ہم ہارڈ آف ایشیا ہیں ہمیں کوئی پوچھتا نہیں ہے اور ہم اپنے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہیں کہ دنیا کے فیصلے ہم کریں گے آج ہماری ادبی پہچان کیا ہے۔ ناصر عباس نیئر نے کہاکہ آج عالمگیریت کی آواز، نظم اور فکشن ہے غزل کی کوئی جگہ نہیں ہے عالمگیریت گلوبلائزیشن میں گم ہوئی ہے جہاں اشیابنائی جارہی ہیں، مارکیٹنگ کی جارہی ہے، اشیاکو فروخت کرنے کے لئے لوگوں میں خواہش پیدا کی جارہی ہے گلوبلائزیشن کے بعد بلیک فرائے ڈے منایا جاتاہے اشتہارات کے ذریعے انسانیت پر اثرات ڈالے جاتے ہیں۔

ہر چیز کو مارکیٹ کرنے کے لئے اس پر ہر طرح کے اشتہارات کے ذریعے راغب کیا جاتا ہے۔ 1900کی صدی نیشنل ازم کی صدی تھی لیکن نیشنل ازم کا جادو بھی ختم ہورہا ہے قومی شعور عالمگیریت کو نہیں بچا سکتا۔ عوامی سطح پر بڑے پیمانے پر عالمگیریت کو بچانے کے لئے قومی شعور کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ سعادت سعید نے نئے عالمی تناظر میں تہذیبی بقا کے تقاضے پرکہاکہ عالمگیریت نے اسیر کرلیا ہے ہم سائنس کو مغرب کی تہذیب سمجھتے ہیں اور اس کے ہونے والے تجربات کو اپنے تخلیق کا حصہ سمجھتے ہیں سائنسی علوم اصلی علوم نہیں ہے ان کے ساتھ تہذیبی علوم کے ساتھ سائنس کو ملاکر اصلی سائنس بنائی جاسکتی ہے۔

عذرا عباس نے جدید ادب اور عورت کی آواز پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ عورت نے جب لکھنا شروع کیا جب سے جدیدیت پیدا ہوئی عورت کا دماغ احساس ہوتا ہے، عورت نے سوچا کہ میں آزاد ہوں اس نے لکھنا پڑھنا سیکھا عصمت چغتائی کا ناول لحاف عابدہ تبسم نے اپنا ناول لکھا تو اس پر بھی ہنگامہ مچ گیاجس میں اس نے ساری چیزوں کو کھول دیا۔عورت ہی جدیدیت لکھ سکتی ہے جس میں احساس ہوتا ہے مرد میں احساس نہیں ہوتا ۔