انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن کے زیر اہتمام دوروزہ ورکشاپ

اتوار 4 دسمبر 2016 23:00

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 دسمبر2016ء) جرمنی کی جسٹیس لیبگ یونیورسٹی(گیسن ) کے پروفیسر ڈاکٹر ہانزوورنرکوئیرونے کہا کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی سے سیلاب،خشک سالی،سیم وتھور جیسے سنگین آفات برپا ہورہی ہیں۔اس کے علاوہ ان تبدیلیوں سے غذائی قلت کا بھی خدشہ ہے ،جرمنی اور برازیل جیسے ممالک کے پاس صلاحیت ہے کہ وہ مکئی اور گنے جیسی غذائی فصلوں سے بائیو فیول پیداکرسکیں۔

بڑھتی ہوئی غذائی طلب اور گھٹتی ہوئی ایندھن کی شرح تشویشناک ہے اور غذائی تحفظ کے چینلنجز سے نمٹنا وقت کی اہم ضرورت بن چکاہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مذکورہ مسائل کے حل کے لئے بائیولوجیکل حل تلاش کئے جائیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن کے زیر اہتمام اور پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کی معاونت سے منعقدہ دوروزہ ورکشاپ بعنوان: ’’پائیدار ترقی اور ماحولیاتی تحفظ ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر بینوبوئیر ،پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان اور پروفیسر ڈاکٹر بلقیس گل نے ٹریننگ سیشن کے شرکاء کو تربیت فراہم کی۔مذکورہ ورکشاپ کا مقصد عالمی ماحولیاتی تبدیلی جو ہماری صحت اور غذائی تحفظ کے لئے خطرہ ہے ،سے متعلق آگاہ فراہم کرنا تھا جس میں بین الاقوامی ماہرین ،جامعہ کراچی کے شعبہ باٹنی ،جغرافیہ ،سینٹر آف ایکسلینس ان میرین بائیولوجی ، انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلوفائٹ یوٹیلائزیشن اور لسبیلایونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی ۔

پروفیسر ڈاکٹر ہانزوورنرکوئیرونے محققین کو روایتی اور غیر روایتی فصلوں کی کیمیائی اور فعلیاتی تحقیق کے اہم امور سے آگاہ کیا ۔انہوں نے کہا کہ سیم اور تھور زدہ زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے لئے یہ تحقیق معاون ثابت ہوسکتی ہے جس سے ماحولیاتی تحفظ کا حصول بھی ممکن ہے۔نوجوان محققین نے مذکورہ ورکشاپ میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ۔ورکشاپ سے چین سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر شائوجن لیو،ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر بینوبوئیر اور ممتاز پاکستانی سائنسدانوں نے بھی کلرزدہ زمینوں پر کاشت کے طریقہ کار سے متعلق آگاہی فراہم کی۔