ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت نہ کرتے تو بھارت کو پاکستان پر تنقید کرنے کا فری ہینڈ مل جاتا، کانفرنس میں شرکت کے ہمارے تین مقاصد تھے، پہلا افغانستان کا امن عمل ،دوسرا کشیدگی کو کم کرنا ہے اور تیسرا بھارت کو کانفرنس میں فری ہینڈ نہ دینا۔ افغان صدر اشرف غنی کے بیان پر بہت افسوس ہوا، نریندر مودی سے ملاقات کے بعد ان کا لب و لہجہ حیران کن تھا، بھارت مسئلہ کشمیر کے حل میں سنجیدہ نہیں، برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں تیزی آ گئی ہے،نوجوان اپنے حق کے لیے پرامن تحریک کو مزید آگے بڑھا رہے ہیں

وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو

پیر 5 دسمبر 2016 22:20

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت نہ کرتے تو بھارت کو پاکستان پر تنقید ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 دسمبر2016ء) وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت نہ کرتے تو بھارت کو پاکستان پر تنقید کرنے کا فری ہینڈ مل جاتا، کانفرنس میں شرکت کے ہمارے تین مقاصد تھے ایک تو افغانستان کا امن عمل اوردوسرا ہم یہ واضح بتا دینا چاہتے تھے کہ اگر کوئی دوطرفہ معاملات ہیں بھی تو اسے افغان امن عمل پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے جیسا بھارت نے سارک کانفرنس کے دوران کیا کیونکہ ان فورمز کا مقصد ہی کشیدگی کو کم کرنا ہے اور تیسرا مقصد بھارت کو کانفرنس میں فری ہینڈ نہ دینا تھا، ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ کانفرنس کے تمام شرکاء نے پاکستان کی کانفرنس میں شرکت کو سراہا لیکن بھارت کا رویہ افسوسناک رہا، بھارت کے رویے نے سارک کے پلیٹ فارم کو بھی نقصان پہنچایا اور حالیہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس بھی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے، انہوں نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ بھارت کے دورے سے کشیدہ تعلقات میں کمی آئے گی لیکن بھارت ماضی کی طرح دہشت گردی کے نام پر پاکستان کو بدنام کرنا چاہتا ہے، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے لیے کوشاں ہے جس میں وہ کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ دنیا تمام حالات و واقعات سے بخوبی آگاہ ہے اور ہمارے سفارت کار بھی اس ضمن میں اپنا کام بخوبی سر انجام دے رہے ہیں، پاکستان چونکہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنے واضح موقف پر قائم ہے اس لیے بھارت پاکستان کو دہشت گردی کے نام پر بدنام کرنے کے لیے لگا ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ میر ے ساتھ مجموعی طور پر بھارتی رویہ مثبت تھا لیکن مجھے میڈیا سے بات نہ کرنے دینا اور گولڈن ٹیمپل نہ جانے دینا ان کی ایک منصوبہ بندی کا حصہ تھا تاکہ ہمارا پیغام میڈیا تک نہ پہنچے اور یہی وجہ تھی کہ پھر میں نے یہاں آ کر پریس کانفرنس کی، بھارتی میڈیا بھی گولڈن ٹیمپل میں میرا انتظار کرتا رہا لیکن انہوں نے بڑا نا معقول سا بہانہ بنا کر ٹال دیا، ہمیں بھارت کی طرف سے کسی قسم کے بریک تھرو کی کوئی توقع نہیں تھی بس ہم تو یہ چاہتے تھے کہ لائن آف کنٹرول پر صورت حال کشیدہ نہ ہو اور آئے روز کی بھارتی فائرنگ کا سلسلہ رک جائے تاکہ لوگ بآسانی اپنے روز مرہ امور سرانجام دے سکیں، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی کے بیان پر مجھے بہت افسوس ہوا حالانکہ کانفرنس سے پہلے صبح میری جب اشرف غنی سے ملاقات ہوئی تو وہ بڑی ہی شاندار رہی جس میں میں نے انہیں اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی کہ پاکستان اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا ، ہم آج بھی اس پر قائم ہیں اور انہیں مزید بہتری کا بھی یقین دلایا، میں نے انہیں بارڈر مینجمنٹ کے بہتر انتظام کی ضرورت پر بھی زور دیا تا کہ غیر ضروری لوگوں کی آمد و رفت کو روکا جا سکے، اشرف غنی سے پاکستانی امداد پر بھی مثبت بات چیت ہوئی لیکن نریندر مودی سے انکی ملاقات کے بعد اشرف غنی کا لب و لہجہ حیران کن تھا، ایک اور سوال کے جواب میں مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے گذشتہ دو اڑھائی سال سے دہشت گردی میں کافی کمی آئی ہے اور انسداد دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں جتنی کامیابیاں ہم نے حاصل کی ہیں کسی اور ملک نے نہیں کیں، دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں بھی پاکستان ہی نے دی ہیں اس لیے ہمیں دہشت گردی کے بارے میں کوئی سبق پڑھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ ہماری اپنی ترجیح ہے جس کے لیے ہماری مسلح افواج نے آپریشن ضرب عضب کے نام پر دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھی ہوئی ہے اور اس میں بہت اہم کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں، مسلح افواج نے کامیاب اور بھرپور کاروائیوں سے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور ان کے نیٹ ورک کو بھی تباہ کر دیا ہے، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی ہماری انسداد دہشت گردی کی پالیسی کا حصہ ہے، ہم نے سینکڑوں غیر قانونی مدارس بند کر دئیے ہیں، چین اور روس نے امن کے لیے پاکستان کے کردار کو ناگزیر قرار دیا ہے، ایک اور سوال کے جواب میں سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر ایران کی ثالثی کی پیشکش کو خوش آمدید کہتے ہیں کیونکہ ہمارا تو مقصد ہی یہی ہے کہ کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق، حق خود ارادیت ملے اور وہ اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزار سکیں، بھارت مسئلہ کشمیر کے حل میں سنجیدہ نہیں لیکن یہ بات بڑی واضح ہے کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں تیزی آ گئی ہے اور نوجوان اپنے حق کے لیے پرامن تحریک کو مزید آگے بڑھا رہے ہیں، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان روس، چین اور امریکا سمیت تمام ممالک سے اچھے اور بہتر تعلقات چاہتا ہے تاکہ ملک ترقی کرے اور لوگ خوشحال ہوں۔