فاٹا اصلاحات کمیٹی نے طویل مشاورتی عمل کے بعد سفارشات اور آراء کو حتمی شکل دیدی ، آئی ڈی پیز کی بحالی، انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو سرفہرست ایجنڈا ہو گا، محب وطن قبائلی عوام کو ترقی کابھرپور موقع فراہم کیا جائے گا، کالے قوانین کا خاتمہ ہو گا اور رواج ایکٹ کے تحت قبائلی روایات، نظام عدل کو بھی تحفظ حاصل ہو گا

وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کی پریس کانفرنس

جمعرات 8 دسمبر 2016 21:38

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 دسمبر2016ء) وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ وزیراعظم محمد نوازشریف کی قائم کردہ فاٹا اصلاحات کمیٹی نے طویل مشاورتی عمل کے بعد سفارشات اور آراء کو حتمی شکل دیدی ہے جسے کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کر دیا جائے گا، آئی ڈی پیز کی بحالی، انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو سرفہرست ایجنڈا ہو گا، محب وطن قبائلی عوام کو ترقی کابھرپور موقع فراہم کیا جائے گا۔

کالے قوانین کا خاتمہ ہو گا اور رواج ایکٹ کے تحت قبائلی روایات، نظام عدل کو بھی تحفظ حاصل ہو گا۔ جمعرات کو یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک تاریخی موقع ہے جس سے فاٹا کے 70 سے 80 لاکھ آبادی کو پاکستان کے دیگر علاقوں کے مطابق نہ صرف حقوق میسر آئیں گے بلکہ ترقی کے مواقع حاصل کرنے کیلئے اپنی رائے اور ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ 1965ء ا ور 1971ء کی جنگ ہو یا آزاد کشمیر خطہ کے لوگوں کی مدد، دہشت گردی اور طالبان کیخلاف جنگ ہو یا کوئی بھی قومی مفاد کی بات فاٹا کے عوام کی قربانیاں قابل تحسین رہی ہیں لیکن اس کے صلہ میں انہیں وہی ایف سی آر کے کالے اور فرسودہ قوانین کے تحت چلایا جا رہا تھا۔ فاٹا کے اراکین اسمبلی و سینٹ کا انتخاب پولیٹیکل ایجنٹس اور ملکان کے ذریعے ہوتا رہاہے۔

وزیراعظم کی تشکیل کردہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی نے فاٹا کی 7 ایجنسیوں، 6 ایف آر ریجنز کے نمائندگان، قبائلی عمائدین اور عوام کی آراء حاصل کیں۔ وہاں کے تاجروں، وکلاء، صحافیوں سے بھی آراء حاصل مکیں اور وہاں کے منتخب 11 اراکین اسمبلی اور 8 اراکین سینٹ کی بھی آراء کے بعد سفارشات کو حتمی شکل دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ا کثریت نے صوبہ کے پی کے میں انضمام کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سفارشات کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کی جائیں گی اور قانون سازی کے مراحل کو پارلیمنٹ میں اور انتظامی عوامل کو انتظامیہ کے ذریعے منظور کرایا جائے گا۔ ترقیاتی بجٹ کے علاوہ سالانہ 10 ارب روپے کی اضافی گرانٹس 5 سے 10 سال تک تجویز کی گئی ہے۔ سرفہرست ایجنڈا آئی ڈی پیز کی بحالی، انفراسٹرکچر کی تعمیر نو اور ترقیاتی پروگرام ہوں گے اور صوبے میں ان کی حیثیت کو اکثریت کے مقابلہ میں قائم رکھنے کیلئے 5 سال کی مدت کیلئے انہیں منفرد حیثیت دی جائے گی تاکہ فاٹا کو ملک اور صوبے کے دیگر علاقوں کے مساوی حقوق میسر آئیں، ترقی ملے اور محرومیوں کا خاتمہ ہو۔

صحت اور تعلیم کو دوگنا ترجیحات دینے کی بھی سفارشات کی گئی ہیں۔ فاٹا اراکین اسمبلی و سینٹ کے فاٹا اصلاحات بل میں بھی صوبے میں ضم ہونے کی بات کی گئی تھی اس میں دی گئی سفارشات کو بھی فاٹا اصلاحات ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے تاکہ کسی قسم کا کوئی سقم باقی نہ رہ سکے۔

متعلقہ عنوان :