سانحہ کوئٹہ انکوائری کمیشن کا جواب سپریم کورٹ میں دونگا ، میں وزیر اعظم کا امیدوار نہیں ، نہ کسی کی پیٹھ میں چھر گھونپا ،نہ ہی 35سالہ سیاست میں چوردروازے سے کسی عہدے کی خواہش کی ، یہ صرف مجھ پر الزام ہے ،آصف زردار ی کسی مفاہمت یا ڈیل کے ذریعے وطن واپس نہیں آئے ، پرویز مشرف کو بیرون ملک بھجوانے کیلئے کسی نے دبائو نہیں ڈالا اور نہ ہی ای سی ایل سے نام نکالنے کیلئے کہا ، ایک مرتبہ ان کا نام ای سی ایل اے نکا لنے کیلئے کہیں نہ کہیں سے سفارش آئی مگرحکومت نے انکار کردیا تھا ، وزیر اعظم سے روز ملاقات ہوتی ہے ،حالیہ ملاقات کراچی آپریشن کے حوالے سے نہیں تھی ، پلی بارگین چوروں اور لٹیروں کو راستہ دینے کے مترادف ہے ،نیب کے کئی قوانین غلط ہیں ، صحیح اور شفاف احتساب جب ہوگا جب نیب کے چیئرمین کا تقرر اعلیٰ عدلیہ کرے ،حکومت اور اپوزیشن مل کر چیئرمین نیب کا تقرر نہ کریں ،آئندہ الیکشن میں بہتر فیصلہ عوام کرینگے،خانانی اینڈ کالیا کیس میں دوہفتوں میں اہم پیشرفت ہوگی، فورتھ شیڈول میں 8ہزار 4سو لوگ شامل ہیں ،قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ فورتھ شیڈول میں شامل لوگ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتے

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی صحافیوں سے غیررسمی گفتگو

ہفتہ 24 دسمبر 2016 19:10

7اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 24 دسمبر2016ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاہے کہ وہ سانحہ کوئٹہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا جواب سپریم کورٹ میں دینگے ، میں وزیر اعظم کا امیدوار نہیں ہوں اس کے بہت سے مواقع آئے لیکن میں نے کسی کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا ،نہ چور دروازے سے کسی عہدے کی خواہش کی، میں گزشتہ 35سالوں سے سیاست میں ہوں، یہ صرف مجھ پر الزام ہے ، عزت عہدوں میں نہیں کردار میں ہوتی ہے ،آصف زردار ی کسی مفاہمت یا ڈیل کے ذریعے وطن واپس نہیں آئے ، نہ ہی حکومت کی جانب سے ان کو کوئی ضمانت نہیں دی گئی ،ڈیل پسندیدہ لفظ بن چکاہے ، انکا نام ای سی ایل میں شامل نہیں تھا، جنرل پرویز مشرف کو بیرون ملک بھجوانے کیلئے کسی نے دبائو نہیں ڈالا اور نہ ہی ای سی ایل سے نام نکالنے کیلئے کہا مشرف کا نام ای سی ایل سے عدالت کے حکم پر نکالاگیا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جب ٹرائل کورٹ نے مشرف کا نام ای سی ایل اے نکالا تھا تو کہیں نہ کہیں سے سفارش آئی تھی مگرحکومت نے انکار کردیا تھا ، اسلحہ لائسنس کے اجرا کی پالیسی تیار کرلی ، آئندہ چند روز میں سامنے لائیں گے وزیر اعظم سے میر روز ہی ملاقات ہوتی ہے ،حالیہ ملاقات کراچی آپریشن کے حوالے سے نہیں تھی،وفاقی حکومت کومسائل ورثے میں ملے تاہم ان پر کافی حدتک قابو پالیاگیا ہے ، پلی بارگین چوروں اور لٹیروں کو راستہ دینے کے مترادف ہے نیب کے کئی قوانین غلط ہیں ، صحیح اور شفاف احتساب جب ہوگا جب نیب کے چیئرمین کا تقرر اعلیٰ عدلیہ کرے حکومت اور اپوزیشن مل کر چیئرمین نیب کا تقرر نہ کریں اور نیب کو انتظامی اورمالی خودمختاری دی جائے،میڈیا احتساب کرسکتا ہے مگرآئندہ الیکشن میں بہتر فیصلہ عوام کرینگے،خانانی اینڈ کالیا کیس میں دوہفتوں میں اہم پیشرفت ہوگی، فورتھ شیڈول میں 8ہزار 4سو لوگ شامل ہیں ،قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ فورتھ شیڈول میں شامل لوگ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتے ، حکومت نے دہشتگردی میں استعمال ہونے والے فنڈز کے استعمال کو روکنے کیلئے سٹیٹ بنک کو خط لکھا اور چالیس ہزار اکائونٹ منجمد کیے گئے ، کالعدم تنظیموں اور منشیات سمگلنگ میں ملوث مفرور مجرموں کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ منسوخ کیے گئے،دو لاکھ مشکوک بنیادوں پر شناختی کارڈ بلاک کیے گئے ہیں۔

وہ ہفتہ کو یہاں پنجاب ہائوس میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کررہے تھے ۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ پیپلزپارٹی کے رہنما آپ سے خائف اور ناراض کیوں رہتے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ چوہدری نثار وزیراعظم بننے کیلئے ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں۔جس پر چوہدری نثار علی خان نے واضح کیا کہ وہ 35سال سے سیاست میں ہیں وزیراعظم بننے کے کئی مواقع آئے تھے لیکن میں نے کبھی کسی کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا اور نہ ہی کسی عہدے کیلئے ساز ش کی اور نہ چور دروازے سے عہدہ حاصل کیا،عزت عہدوں سے نہیں کردار کے ذریعے ہونی چاہیے اور میں نے اپنی ثابت قدمی سے عزت ہی کمائی ہے۔

جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ سانحہ کوئٹہ پر قائم کمیشن چیف سیکرٹری بلوچستان نے وفاقی حکومت سے متعلق کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے تو انہوں نے کہاکہ کمیشن نے نوٹس صوبائی حکومت کو دیا تھا وفاقی حکو مت کو نہیں دیا تھا،وفاق سے جو کچھ پوچھا گیا اس کے جواب دیئے گئے اس معاملے میں باقی باتیں جب سپریم کورٹ بلائے گی تو وہاں ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ میں نے ساری زندگی کوشش کی ہے کہ ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دوں ،وزارت داخلہ کی کامیابیوں کی صحیح طریقے سے تشہیر بعض وجوہات پر نہیں کی تھی،انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت کو بعض مسائل ورثے میں ملے،لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے اقدامات جاری ہیں،دہشتگردی کو کنٹرول کرنے کیلئے جو اقدامات کیے گئے ان کے مثبت نتائج آئے ہیں،معیشت کو ٹریک پر لایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی کارکردگی پر وہ جج بن کر فیصلہ نہیں دے سکتے یہ فیصلہ پانچ سال بعد عوام ہی کرتی ہے اور جب 2018میں عوام کے پاس جائیں گے تو وہ ہی بہتر فیصلہ کریں گے،میڈیا محتسب کا کردار ادا کرسکتا ہے،جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا سابق صدر آصف علی زرداری حکومت سے کوئی ڈیل کرکے وطن واپس آئے ہیں تو وزیرداخلہ نے ان اخباری خبروںکی سختی سے تردید کی اور کہا کہ ڈیل کا لفظ میڈیا کیلئے انتہائی پسندیدہ بن گیا ہے،حکومت کے ساتھ آصف زرداری کی نہ تو کسی قسم کی ڈیل ہوئی اور نہ ہی حکومت نے ان کی وطن واپسی کے معاملے پر کوئی یقین دہانی کرائی ہے۔

آصف زرداری کو پاکستان واپس آنے کیلئے کسی ڈیل کی ضرورت نہیں تھی ،نہ تو ان کانام ای سی ایل مین شامل تھا اور نہ ہی ان کے پاکستان آنے پر پابندی عائد تھی۔کراچی میں گذشتہ روز آصف زرداری کی آمد سے قبل رینجرز کے چھاپوں سے متعلق وزیرداخلہ نے کہاکہ رینجرز ان چھاپوں سے متعلق اپنا موقف ظاہر کرچکے ہیں،اس معاملے کی تفتیش جاری ہے،حقائق سامنے آنے کا انتظار کیا جائے ۔

خورشید شاہ اور اعتزاز احسن کے الزامات اور بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیرداخلہ نے کہاکہ خانانی اینڈ کالیا منی لانڈرنگ کیس سے متعلق سابق دور حکومت میں عدالتوں میں کیسز کی پیروی نہیں کی گئی اور معاملہ ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی چند روز قبل جب خانانی اینڈ کالیا گروپ کے مالک جاوید خانانی کی موت واقع ہوئی اور اسے میڈیا رپورٹس میں خودکشی کہا گیا اور بعض میڈیا رپورٹس میں اسے اتفاقیہ موت کہا گیا تو میں نے چند روز قبل یہ کہا تھا کہ میں خانانی اینڈ کالیا کے منی لانڈرنگ کیس سے متعلق بہت سے حقائق ابھی سامنے نہیں آئے،دوہفتوں میں اہم پیشرفت ہوگی،انہوں نے کہاکہ وزارت داخلہ کوئی تفتیشی ادارہ نہیں ہے،تفتیش کرنا نیب کا کام ہے،انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی ان سے اس لئے خائف رہتی ہے کہ ای او بی آئی ،ٹڈاپ سمیت 12 کرپشن کے اہم کیسز جن سے متعلق سابق دور حکومت میں سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو تفتیش کے احکامات جاری کیے تھے لیکن پیپلزپارٹی نے اپنے دورمیں تفتیش آگے بڑھنے نہیں دی اور ایک کیس میں خورشید شاہ کے متعلق نیب کے اس وقت کے پراسیکیوٹر نے پہلے اس کیس کو فٹ فار ٹرائل قرار دیا تھا لیکن بعد ازاں دبائومیں آکر اس کیس کو بند کرنے کے حق میں فائل پر رائے دی،اس کیس سے متعلق کسی نے فائل بھیجی تھی اور میں نے یہ کہا تھا کہ اس میں بہت سے حقائق موجود ہیں ۔

بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے ساتھ نیب کی پلی بارگین سے متعلق کیے گئے سوال پر وزیرداخلہ نے کہاکہ پلی بارگین چوروں اور لٹیروں کو راستہ دینے کے مترادف ہے نیب کے کئی قوانین غلط ہیںپیپلزپارٹی کے دور حکومت میں نیب کا نیا قانون لانے کی کوشش کی لیکن پیپلزپارٹی نے اس کی مخالفت کی تھی ۔انہوں نے کہا کہ صحیح اور شفاف احتساب جب ہوگا جب نیب کے چیئرمین کا تقرر اعلیٰ عدلیہ کرے حکومت اور اپوزیشن مل کر چیئرمین نیب کا تقرر نہ کریں اور نیب کو انتظامی اورمالی خودمختاری دی جائے،جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ سے متعلق سوال پر وزیرداخلہ نے کہاکہ اس پر کام شروع ہوگیا ہے ۔

سابق صدر پرویز مشرف کے حالیہ بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ جنرل پرویز مشرف کو بیرون ملک بھجوانے کیلئے کسی نے دبائو نہیں ڈالا اور نہ ہی ای سی ایل سے نام نکالنے کیلئے کہا مشرف کا نام ای سی ایل سے عدالت کے حکم پر نکالاگیا ۔انہوں نے کہا کہ جب ٹرائل کورٹ نے مشرف کا نام ای سی ایل اے نکالا تھا تو کہیں نہ کہیں سے سفارش آئی تھی مگرحکومت نے انکار کردیا تھا اور اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ مشرف کے باہر جانے پر تنقید کر رہے ہیں انہوں نے اپنے دور میں اسے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ایان علی کے معاملے پر انہوں نے کہاکہ اس کا نام ای سی ایل میں ایف بی آر کی درخواست پر ڈالا گیا ہے اور پنجاب حکومت نے ایک تفتیشی افسر کے قتل کیس میں اس کی بیوہ کی درخواست پر ایان علی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی درخواست کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن نے کئی دفعہ یہ بیان دیے کے وہ مجھے قانونی نوٹس بھجوائیں گے مگر ابھی تک کوئی نوٹس نہیں بھجوایا۔فورتھ شیڈول سے متعلق وزیرداخلہ نے کہاکہ فورتھ شیڈول میں 8ہزار 4سو لوگ شامل ہیں اور پولیس کا نام ان لوگوں کی نگرانی کرنا ہوتا ہے مگر قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ فورتھ شیڈول میں شامل لوگ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ حکومت نے دہشتگردی میں استعمال ہونے والے فنڈز کے استعمال کو روکنے کیلئے سٹیٹ بنک کو خط لکھا اور چالیس ہزار اکائونٹ منجمد کیے گئے جبکہ کالعدم تنظیموں اور منشیات سمگلنگ میں ملوث مفرور مجرموں کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ منسوخ کیے گئے،دو لاکھ مشکوک بنیادوں پر شناختی کارڈ بلاک کیے گئے ہیں۔(خ م+ط س)