سندھ اسمبلی نے منظور کردہ بل کی واپسی یا ترمیم کیلئے کوشش کی تو بھرپورمخالفت کریں گے،ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی

ہفتہ 24 دسمبر 2016 20:40

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 دسمبر2016ء) پاکستان ہندو کونسل کے سرپرستِ اعلیٰ اور ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمارونکوانی نے سندھ اسمبلی کے حالیہ منظور کردہ مذہب تبدیلی بل کی ممکنہ واپسی اور ترامیم کی میڈیا رپورٹس پر سخت اظہارِ تشویش کیا ہے، انہوں نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ایک وفد سے ملاقات میں کہا کہ سندھ میں ہندو نابالغ بچیوں کے اغواء اور جبری مذہب تبدیلی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کیلئے سندھ اسمبلی کا بل غیرمسلم آبادی کی شکایات کا ازالہ کرتا ہے، اس موقع پر پاکستان ہندوکونسل کے قائم مقام صدرپرشوتم رامانی، سیکرٹری فنانس پمن لال، سابق صدر چیلارام کیلوانی، کنول اور دیگر بھی موجود تھے۔

پاکستان ہندوکونسل سیکرٹریٹ کے دورے پر آئے ہیومن کمیشن کے وفد میںانتھونی نوید، صابر مائیکل، سیما مہیش ورے اوراسد اقبال بٹ شامل تھے،ہیومن رائٹس کمیشن کے وفد نے ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی کی انسانی حقوق کی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدرِ پاکستان کی جانب سے ہیومن رائٹس ایوارڈ سے نوازے جانے پرمبارکباد بھی پیش کی، ڈاکٹر رمیش ونکوانی نے کہا کہ ہم اپنی مرضی سے مطالعہ کرکے یا تبلیغ و دعوت کے نتیجے میںمذہب تبدیل کرنے کے مخالف نہیں، انہوں نے اِس امر پر تعجب کا اظہار کیا کہ سندھ بھر سے مسلمان ہونے والے باشندیوں میں صرف نابالغ بچیاں ہی کیوں ہیں۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر رمیش ونکوانی نے مسلمان ملک ملائشیا سمیت دیگرکے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کِسی بھی انسان کو مذہب تبدیلی جیسا زندگی کا اہم ترین فیصلہ کرنے کیلئے عاقل و بالغ ہوناضروری ہے جبکہ مسلمان ہونے والے کیلئے تو مزید احتیاط اور اسلام کے مطالعے کی ضرورت ہے کیونکہ اسلام نے بعد میں مرتد ہوجانے کی سزا موت قرار دی ہے، انہوں نے کہا کہ ملایشیا میں مذہب تبدیل کرنے والے اٹھارہ سال سے کم عمر کیلئے والدین یا سرپرست کی رضامندی قانونی طور پر ضروری ہے،ڈاکٹر رمیش ونکوانی نے سخت گیر مذہبی جماعتوں کے احتجاج کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے مذہبی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈران کرام کو دورہِ سندھ کی دعوت دی کہ وہ آکر اندرونِ سندھ کی صورتحال کا اپنی آنکھوں سے جائزہ لیں کہ کس طرح ایک پرامن مذہب اسلام کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیرمسلم مقامی آبادی کے مذہبی جذبات مجروح کیے جارہے ہیں جسکی بناء پر معاشرے میں غم و غصہ پایا جاتا ہے، ڈاکٹر رمیش نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اگر سندھ اسمبلی نے سخت گیر مذہبی جماعتوں کے پریشر میں آکر منظورکردہ بل کی واپسی یا ترمیم کی کوشش کی تو اس سے نہ صرف غیرمسلم آبادی کے احساسِ عدمِ تحفظ میں اضافہ ہوگا بلکہ پاکستان کو عالمی سطع پر بھی تنہائی کا شکارہونے کا خدشہ ہے۔

اس موقع پر پاکستان ہندوکونسل اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے آئیندہ کے لائحہ عمل کیلئے مشترکہ جدوجہد پر بھی اتفاق کیا۔