چکن گنیا بخار کوئی نئی بیماری نہیں ، اس سے وائٹ سیلز کی تعداد ڈینگی کی طرح کم نہیں ہوتی :غیاث النبی طیب

بخار کم کرنے کے لئے پیناڈول کا استعمال ضروری ، پانی کا زیادہ استعمال مریض کو وائرس سے محفوظ رکھتا ہے، پرنسپل پی جی ایم آئی و دیگر طبی ماہرین کا لیکچرز

جمعہ 30 دسمبر 2016 19:28

لاہور۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 دسمبر2016ء) پرنسپل پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ و امیر الدین میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر غیاث النبی طیب نے کہا ہے کہ دنیا میں چکن گنیا بخار کوئی نئی بیماری نہیں۔ مچھروں سے پھیلنے والی وائریل انفیکشن بیماری ’’چکن گنیا‘‘ بخار کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ، چکن گنیا ڈینگی مچھر سے ملتا جلتا ہے تاہم اس سے وائٹ سیلز کی تعداد ڈینگی کی طرح کم نہیں ہوتی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے مرض کی علامات ، طریقہ علاج اور بچاؤ کے لئے لیکچر دیتے ہوئے کیا۔ اس موقع پرڈاکٹروں کی بڑی تعداد موجود تھی جبکہ ایسوسی ایٹ پروفیسر آف میڈیسن ڈاکٹر اسرار الحق طور نے بھی چکن گنیا کے حوالے سے تفصیلی روشنی ڈالی۔ طبی ماہرین کے مطابق اس وائرس سے متاثرہ مچھر جب کسی صحت مند انسان کو کاٹتا ہے تو عمومی طورپر تین سے سات دن کے بعد اس مرض کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

جن میں تیز بخار، جوڑوں میں درد و سوزش، جلد پر دھبے، سر درد، پٹھوں کا درد، متلی اور تھکاوٹ شامل ہیں۔ چکن گنیا کے مریضوں کو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے ۔چونکہ اس بیماری کی کوئی مخصوص دوا یا ویکسئین دستیاب نہیں اس لئے احتیاط بہترین علاج کے مصداق مچھروں کے کاٹنے سے بچائو اور مچھروں کی افزائش کو روکنے کے پہلو انتہائی اہم ہیں- طبی ماہرین نے اس وائرس کے پھیلائو کے اسباب کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریبا 3لاکھ افراد اس مرض سے متاثر ہوتے ہیں۔

افریقہ کے ساحلی اور وسطی علاقے، جنوبی ایشیاء، مشرق بعید اور جنوبی بحرالکاہل کے علاقے زیادہ تر اس مرض کی لسٹ پر ہیں۔ عمومی طور پر یہ تمام علاقے مچھروں کی پرورش کے لئے ایک مرطوب اور معتدل ماحول فراہم کرتے ہیں۔ جس کی بناء پر یہ مرض زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ مچھروں کی دو اقسام ہیں۔جن کو ہم Aedes Aegyph اور Aedes Albopictu کے نام سے جانتے ہیں۔ چکن گنیا کی وباء بھی زیادہ تر ان ممالک میں دیکھنے میں آئی ہے جہاں صفائی ستھرائی کم ہونے کی وجہ سے مچھروں کی افزائش آسانی سے ہوجاتی ہے۔

ابھی تک صرف یورپ کے ایک ملک اٹلی میں 2007ء میں چکن گنیا کی وباء رپورٹ ہوئی تھی۔ اس بیماری کا شکار بننے والے دنیا کے 40 ممالک میں زیادہ تر ایشیاء اور افریقہ کے غریب اور ساحلی ممالک ہی نظر آتے ہیں۔چکن گنیا کی تشخیص عمومی طو ر تین عوامل پر منحصر ہوتی ہے جس میں علامات ، جغرافیائی ماحول ، لیبارٹری ٹیسٹ شامل ہوتے ہیں۔ طبی ماہرین نے علاج کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ ابھی تک اس بیماری کے علاج کی کوئی مخصوص دوا نہیں ہے۔

صرف امدادی (Supportive) طریقہ کار سے مرض کی شدت کو کم کرکے مریض کو پرسکون رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وائرس کا بخار اپنا قدرتی وقت پورا کرکے خودبخود ختم ہوسکے۔علامات کے لحاظ سے بخار کم کرنے والی ادویات جیسے پیناڈول دی جاسکتی ہے۔ بروفن، اسپرین دینے سے اجتناب ضروری ہے۔اس کے علاوہ پانی اور دیگر مشروبات کا استعمال مریض کو وائرس سے محفوظ رکھتا ہے۔

متعلقہ عنوان :