سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے متفقہ طور پر ہندو میرج بل 2016 منظور کرلیا

ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے بل کی منظوری کو ہندو برادری کیلئے سال نو کا تحفہ قراردیدیا

پیر 2 جنوری 2017 19:43

سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے متفقہ طور پر ہندو میرج بل ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 جنوری2017ء) سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے متفقہ طور پر ہندو میرج بل 2016 منظور کرلیا جسے سال نو کے موقع پر اقلیتوں کیلئے نئے سال کا تحفہ قرار دیا جا رہا ہے۔متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی سینیٹر نسرین جلیل کی سربراہی میں قائم سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کے کمرہ نمبر4 میں ہوا، جہاں بل پر مکمل بحث کی گئی۔

بحث کے دوران ماہر قانون ساز سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ بل آئین پاکستان کی روح کے مطابق ہے۔بعد ازاں کمیٹی نے بل کو متفقہ طور پر منظورکرلیا، بل کی منظوری کے وقت تمام سینیٹرز، عہدیداروں اور وزراء نے ڈیسک بجا کر اس کی منظوری دی۔قومی اسمبلی کے اقلیتی ممبر ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے بل کی منظوری کو ہندو برادری کیلئے سال نو کا تحفہ قراردیتے ہوئے کہا کہ انہیں آج پاکستانی ہندو ہونے پر فخر ہو رہا ہے، اب وہ اپنی شادیوں اور طلاقوں کو قانونی طور پر حل کر سکیں گے۔

(جاری ہے)

سینیٹر اعتزاز احسن نے اس موقع پر بل کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ بل اسلامی اصولوں کے خلاف نہیں ہے کیونکہ مذہب اسلام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کرتا ہے ،ْ بل کے تحت ہندو برادری کے لوگ اپنی شادیوں کو رجسٹر کرانے سمیت طلاق کیلئے عدالتوں سے رجوع کر سکیں گے جبکہ ہندو بیواؤں کو دوسری شادی کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔ہندو میرج بل 2016 کی شق 17 کے مطابق ہندو بیوہ اپنے شوہر کے موت کے 6 ماہ بعد اپنی مرضی سے دوسری شادی کر سکے گی ،ْبل کے تحت ہندو برادری کے لوگ مسلمانوں کی طرح نکاح نامے کی طرز کی دستاویزات بھی حاصل کرسکیں گے جبکہ بل کی خلاف ورزی کیلئے سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔

بل کے تحت پاکستان میں رہنے والی ہندو برادری کو جامع اور وسیع خاندانی قانون کے فوائد حاصل ہوں گے۔سندھ اسمبلی سے منظور کردہ بل کے میں شادی کی رجسٹریشن یونین کونسل میں کرانی لازمی قرار دی گئی ہے اور جو جوڑا رجسٹریشن نہیں کرائے گا ،اس پر ایک ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائیگا۔بل کے متن کے مطابق شادی میں 2 گواہوں کی موجودگی اور والدین کی رضامندی بھی ضروری قرار دی گئی ہے ،ْ سکھ، پارسیوں اور دیگر اقلیتوں کی شادیاں بھی اسی بل کے تحت رجسٹرڈ ہوں گی۔