سپریم کورٹ ،کمسن ملازمہ کوتشدد کانشانہ بنانے کا ازخود نوٹس کیس ، متاثرہ بچی کو پیش نہ کرنے پر عدالت کابرہمی کااظہار

تحقیقات مکمل کرنے کیلئے مہلت دینے کی پولیس کی استدعا مسترد ، بچی کوبازیاب اوررشتہ داروں کے ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کی ہدایت

جمعہ 6 جنوری 2017 22:37

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 جنوری2017ء) سپریم کورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کی اہلیہ کی جانب سے کمسن ملازمہ کوتشدد کانشانہ بنانے کے ازخود نوٹس کیس میں متاثرہ بچی کو پیش نہ کرنے پربرہمی کااظہار کیا اور تحقیقات مکمل کرنے کیلئے مہلت دینے کی پولیس کی استدعا مسترد کر دی ۔ سپریم کورٹ نے مزیدکہاکہ بنیادی حقوق کے معاملے میں راضی نامہ نہیں کیاجاسکتا ،جن بچوںکی اپنے والدین حفاظت نہیں کرسکتے عدالت ان کی مخافظ ہے۔

جمعہ کویہاں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔ اس موقع پر ایڈیشنل سیشن جج اسلام آبادراجہ خرم کی اہلیہ مہین، بچی کی والدہ ہونے کی دعویدار خاتون ، آئی جی، ڈی آئی جی اورمتعلقہ تفتیشی افسر عدالت میں پیش ہوئے۔

(جاری ہے)

عدالت سے استدعاکی گئی کہ کیس میں تحقیقات مکمل کرنے کے لئے دو ہفتوں کی مہلت دی جائے جو عدالت نے مسترد کردی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ واقعہ کی تحقیقات کیلئے مزیدمہلت نہیں دی جاسکتی ورنہ سارے شواہد ضائع ہوجائیں گے۔ ہمیں بتایاجائے کہ عدالتی حکم کے باوجود بچی کو کیوں پیش نہیں کیا گیا،پولیس حکام نے عدالت بتایا کہ بچی کوجگہ جگہ تلاش کیا گیا لیکن بچی کا پتہ نہیں چل سکا تاہم پولیس بچی کو تلاش کررہی ہے جس کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کردیاجائے گا، چیف جسٹس نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ بچی کوبازیاب کرکے اس کا طبی معائنہ کرایا جائے ۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کی اہلیہ مہین نے عدالت سے استدعا کی کہ جواب جمع کروانے کے لئے مہلت دی جائے جس پر عدالت نے انہیں اپنا جواب آئندہ سماعت پر جمع کروانے کی ہدایت کی ۔ عدالت نے ڈی آئی جی کواس معاملے پرایک کمیٹی بنانے کی بھی ہدایت کی اورکہاکہ کمیٹی 11جنوری تک اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرے ۔ عدالت میں بچی طیبہ کے حوالے سے ایک خاتون نے دعویٰ کیا کہ وہ اس کی والدہ ہے جبکہ دیگر افراد اس کے رشتہ دار ہیں ان کی اس معاملے میں صلح ہوچکی ہے ، تاہم عدالت نے صلح کی اطلاع پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تھانہ آئی نائن پولیس کو ہدایت کی کہ تمام دعویداروں کو تحویل میں لے کر ان کے ڈی این اے ٹیسٹ کروائے جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔

بعدازاں مزید سماعت ملتوی کردیگئی۔