سندھ یونیورسٹی ہاسٹل میں خود کشی کرنے والی طالبہ سے متعلق ابتدائی رپورٹ تیار

لڑکی نے شادی کا جھوٹا وعدہ پورا نہ ہونے پر دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کی، پولیس طالبہ کے گھر والوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے واقعے کو خودکشی قرار دینے پر تحفظات کا اظہار کردیا

جمعہ 6 جنوری 2017 23:15

حیدر آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 06 جنوری2017ء) نئے سال کے پہلے دن سندھ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مبینہ طور پر خودکشی کرنے والی طالبہ سے متعلق پولیس نے اپنی ابتدائی تفتیش کے بعد کہا ہے کہ لڑکی نے شادی کا جھوٹا وعدہ پورا نہ ہونے پر دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کی۔طالبہ کے گھر والوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے واقعے کو خودکشی قرار دینے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) حیدر آباد خادم حسین رند اور ایس ایس پی جامشورو نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ نائلہ رند خودکشی کیس میں سندھ یونیورسٹی کے سابق طالب علم انیس خاصخیلی کو گرفتار کیا گیا۔خادم حسین رند کے مطابق انیس کو نائلہ کے موبائل سے حاصل ہونے والی معلومات کے بعد گرفتار کیا گیا، انیس اور نائلہ کے درمیان 3 ماہ قبل سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک پر رابطہ ہوا، جو بعد ازاں موبائل فون پر رابطے اور محبت میں تبدیل ہوا۔

(جاری ہے)

خادم حسین رند نے کہا کہ انیس خاصخیلی نجی اسکول میں استاد ہے، اس نے 2008 میں سندھ یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کیا تھا، انیس نے نائلہ سے شادی کا جھوٹا وعدہ کیا تھا، جو پورا نہ ہونے پر طالبہ نے خودکشی کی۔انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ انیس کی جانب سے شادی کا وعدہ پورا کیوں نہیں کیا گیا۔ڈی آئی جی حیدر آباد کا مزید کہنا تھا کہ انیس کے موبائل ڈیٹا کے مطابق اس کے 30 لڑکیوں کے ساتھ روابط تھے جبکہ اس کے موبائل سے نائلہ رند سمیت دیگر لڑکیوں کی قابل اعتراض تصاویر بھی ملی ہیں۔

خیال رہے کہ جامشورو پولیس نے گزشتہ روز شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی نواب شاہ کے رجسٹرار غلام رسول خاصخیلی کی سعید آباد میں موجود رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر انیس خاصخیلی کو گرفتار کیا تھا۔پولیس کی جانب سے معاملے کو ایک بار پھر براہ راست خودکشی کا واقعہ قرار دینے پر سول سوسائٹی کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، جبکہ نائلہ رند کے اہل خانہ نے معاملے کے بعد اپنے زیادہ تر موبائل فون نمبرز بند کردیئے ہیں۔

نائلہ رند کی خودکشی کو 5 دن گزر جانے کے باوجود تاحال واقعے کا مقدمہ درج نہیں کیا جاسکا جبکہ خودکشی کے واقعے کے بعد سندھ یونیورسٹی کی طالبات میں خوف پایا جاتا ہے۔دوسری جانب سندھ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تشکیل دی گئی ہراساں کمیٹی کئی ماہ سے غیر فعال ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔۔