نارتھ ناظم آباد ، دستی بم حملے اور فائرنگ کے واقع میں کالعدم القاعدہ برصغیر کے ملوث ہونے کا خدشہ

اتوار 8 جنوری 2017 15:20

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 08 جنوری2017ء) سندھ پولیس کے انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ کے سینئر افسر نے نارتھ ناظم آباد میں ہونے والے دستی بم حملے اور فائرنگ کے واقع میں کالعدم القاعدہ برصغیر کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔اس خدشے کا اظہار انھوں نے حملوں کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں آپریشن کے دوران 15 مشتبہ افراد کی حراست کے بعد کیا۔

خیال رہے کہ جمعہ کے روز موٹر سائیکل سوار دو ملزمان نے نارتھ ناظم آباد پولیس کمپلکس، جس کی حدود میں تیموریہ تھانہ بھی قائم ہے، ایک دستی بم پھینکا تھا، جس کے بعد انھوں نے فائیو اسٹار ٹریفک انٹر سیکشن پر فائرنگ کرکے ایک ٹریفک پولیس اہلکار اور ایک رکشہ ڈرائیور کو ہلاک کردیا تھا۔

(جاری ہے)

واقعے کے بعد پولیس اور رینجرز نے نارتھ ناظم آباد میں مشترکہ آپریشن کے دوران 15 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا، جن کے بارے میں بعد ازاں سندھ رینجرز کے ترجمان نے اپنے ایک جاری بیان میں کہا تھا کہ وہ مبینہ طور پر دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ حراست میں لیے گئے مشتبہ افراد کو تفتیش کیلئے پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔پولیس عہدیدار کا کہنا تھا کہ وہ حملہ آوروں کی شناخت اور دونوں حملوں کے پیچھے مقاصد کی نشاندہی کیلئے تمام اقدامات بروکار لارہے ہیں۔سی ٹی ڈی کے عہدیدار راجہ عمر خطاب کا کہنا تھا کہ 'حملے کا طریقہ کار ظاہری طور پر کالعدم تنظیموں کا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ وہ نارتھ ناظم آباد سمیت دیگر علاقوں میں اسی قسم کے دہشت گردی کے حملوں میں ملوث رہ چکے ہیں'۔

پولیس افسر نے ان حملوں کا الزام مبینہ طور پر القاعدہ کے برصغیر گروپ پر عائد کیا۔ان کاماننا تھا کہ اپریل 2016 میں القاعدہ برصغیر گروپ کے اراکین کی گرفتاری کے بعد وہ کمزور ہوگیا ہے، یہ گرفتاریاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھماکوں میں نشانہ بنانے کے بعد عمل میں لائی گئیں تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں تیموریہ تھانے پر ہونے والا دستی بم حملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کالعدم تنظیموں کے پاس اب IED بنانے کی مہارت رکھنے والوں کا فقدان ہے۔

واقعے کے مبینہ مقاصد کے حوالے سے سی ٹی ڈی عہدیدار کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند شہر میں اپنی موجودگی دکھانا چاہتے ہیں۔گذشتہ ہفتے راشد منہاس روڈ پر ٹارگٹ کلنگ کا نشان بننے والے سب انسپکٹر اقبال محمود کے حوالے سے عمر خطاب نے کہا کہ تفتیش کار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس واقعے کے پیچھے بھی کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کا ہاتھ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کار اس کیس کی جانچ پڑتال کررہے ہیں جس پر مقتول پولیس افسر کام کررہا تھا اور قاتلوں کی شناخت اور مقاصد کی نشاندہی میں پیش رفت سامنے آئی ہے۔دوسری جانب کراچی پولیس کے چیف مشتاق مہر کی زیر صدارت ہونے والے ایک اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ شہر میں ہونے والے 65 فیصد اسٹریٹ کرائم میں ایسے جرائم پیشہ افراد ملوث ہیں جو نشے کے عادی ہیں اور وہ منشیات کی خریداری کیلئے جرم کرتے ہیں۔

اجلاس میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف ٹارگیٹڈ کارروائیوں میں اضافے اور شہر سے منشیات کے خاتمے کیلئے اقدامات کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اجلاس کے شرکاء نے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا جائزہ بھی لیا اور انھوں نے ان مقدمات کی تفتیش جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔اجلاس میں یہ ہدایات بھی کیں گئیں کہ اے ٹی سی کیسز میں درج ایف آئی آر کی کاپی 24 گھنٹے کے اندر اے ٹی سی عدالت کے ایڈمنسٹریٹیو جج کو روانہ کی جائیں۔

اجلاس میں ڈی آئی جی ایڈمن غلام سرور جمالی، اے ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ جاوید احمد مہر، ڈی آئی جی سی آئی اے ڈاکٹر جمیل احمد، ایس پی ایس آئی یو فاروق اعوان، تمام زونل ڈی آئی جیز، ڈی آئی جی ساؤتھ آزاد خان، ڈی آئی جی ایسٹ عارف حنیف، ڈی آئی جی ویسٹ ذوالفقار لاڑک اور کراچی کے تمام ضلعی وانویسٹی گیشن ایس ایس پیز نے شرکت کی۔#

متعلقہ عنوان :