قائمہ کمیٹی قانون و انصاف میں اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود 24ویں آئینی ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور

بل کی ٹائمنگ غلط ہے، بل کی منظوری سے پانامہ کیس بل کے حوالے سے غلط تاثر جائے گا،اپوزیشن جماعتیں اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت پر بل کی منظوری کیلئے حکومت کو دوتہائی اکثریت کے حصول میں مشکلات کا سامنا ،پیپلزپارٹی ،تحریک انصاف،جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے ارکین کے اختلافی نوٹس رپورٹ کے ساتھ پیش ہوں گے، پنچائت سسٹم کی بحالی کے بل پر غور شروع

پیر 9 جنوری 2017 15:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 09 جنوری2017ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے کثر ت رائے سے 24ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری دیدی ہے،اپوزیشن جماعتوں نے بل کی مخالفت کردی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس بل کی منظوری سے پانامہ کیس بل کے حوالے سے غلط تاثر جائے گا،اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بل کی منظوری کیلئے حکومت کو دوتہائی اکثریت کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرناپڑسکتا ہے،پیپلزپارٹی،تحریک انصاف،جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے ارکین کے اختلافی نوٹس بھی رپورٹ کے ساتھ دونوں ایوانو ں میں پیش ہوں گے،ملک میں پنچائت سسٹم کی بحالی کے بل پر بھی غور شروع کردیا گیا ہے۔

پیر کو قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس چیئرمین چوہدری محمد بشیر ورک کی صدارت میں پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے سوموٹو نوٹسز کے فیصلوں کے بارے میں اپیل کا حق دینے کیلئے آئین میں 24ویں ترمیم کے بل پر غور کیا گیا،پاکستان پیپلزپارٹی کی مخالفت پر وزیرقانون و انصاف زاہد حامد اپوزیشن کی اس بڑی جماعت پر برس پڑے اور کہاکہ ایوان میں متعددبار پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر اور ایاز سومرو نے حکومت پر زور دیا کہ سوموٹو نوٹسز میں اپیل کا حق دینے کی ترمیم کب لائی جارہی ہے،جب ہم ترمیم لے آئے تو مخالفت شروع کردی اور کہنے لگے کے پانامہ کیس میں حکومت کو بچانے کیلئے یہ ترمیم لے آئے ہیں جبکہ یہ تاثر بالکل غلط ہے،شہریوںکے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے یہ ترمیم لے کر آئیں ہیں،پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے اس ترمیم نے منظور ہونا ہے اور حکومت کو کوئی جلدی نہیں ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے کہا کہ وہ بل سے اصولی طور پر متفق ہیں مگر بل کی ٹائمنگ غلط ہے اور عدلیہ کو غلط تاثر جائے گا جب تک پانامہ لیکس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا اس بل کو موخر کردیا جائے۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی نے کہاکہ انہوں نے تاحال اس بل کو نہیں پڑھا ہے ترمیم لانے کیلئے دوہفتوں کا وقت دیا جائے۔جماعت اسلامی کی رکن عائشہ سید نے بل کو مکمل طور پر مسترد کردیا اور کہا کہ چند افراد کے فائدے کیلئے یہ بل لایا جارہا ہے ملک کی غالب آبادی کو اس بل کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا،سوموٹو نوٹسز اداروں اور عوامی نمائندوں سے متعلق لیے جاتے ہیں عوام کے معاملات پر کم ہی نوٹسز دیکھنے میں آئے ہیں،جماعت اسلامی بل کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔

ایم کیو ایم کے ایس اے اقبال قادری نے بھی بل کی مخالفت کی اور وہ بھی ترامیم لانا چاہتے تھے۔وزیرقانون و انصاف زاہد حامد نے کہاکہ سوموٹو نوٹسز میں اپیل کے حق کی اس بل کی محرک پاکستان پیپلزپارٹی ہے کیونکہ ایاز سومرو نے 2سال قبل یہ بل قومی اسمبلی میں متعارف کروایا تھا میں نے جب اس بل کو دیکھا تو ایوان میں واضح طور پر بیان دیا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت ایسا نہیں ہوسکتا اس کیلئے دستور میں ترمیم لانا ہوگی،پیپلزپارٹی خود اس بل کی محرک ہے اور خود اس کی تنقید شروع کردی ہے،بل کے بارے میں سارے ریکارڈ کی چھان بین شروع کردیں،پانامہ لیکس سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے،ایوان میں مجھے خود ایاز سومرو کئی بار ملے اور کہا کہ حکومت یہ بل جلدی لے کر آئے،اب موقف اختیار کیا جارہا ہے کہ حکومت کو بچانے کیلئے یہ بل لایا جارہا ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے موقف اختیار کیا کہ پانامہ لیکس کیس میں عدالت عظمیٰ کے دائرہ اختیار پر اگر وکلاء کے دلائل درست ثابت ہوگئے تو پانامہ کے معاملے کو عدالت ازخود نوٹس قرار دے سکتی ہے اور اگر ہم یہ بل منظورکرلیتے ہیں تو عدالت کو غلط تاثر جائے گا۔نوید قمر نے کہا کہ ٹائم بھی غلط ہے ماحول بھی اس بل کی منظوری کا نہیں ہے،میں مکمل طور پر بل کی حمایت کرتا ہوں کوئی اعتراض نہیں ہے،پانامہ کیس سے پہلے اس بل کو نہ چھیڑا جائے،اچھی چیزیں ہورہی ہیں تو اسے اچھے طریقے سے کریں ،پانامہ کیس ختم ہوجائے تو ہم اتفاق رائے سے منظوری دے دیں گے کیونکہ بل نے دونوں ہائوسز میں جانا ہے،قومی اسمبلی سے شاید حکومت بل منظور کروالے،سینیٹ سے قطعی طور پر حکومت یہ بل منظور نہیں کرواسکتی۔

زاہد حامد نے واضح کیا کہ 15ستمبر 2015کو سینیٹ آف پاکستان سوموٹو نوٹسز میں اپیل کا حق دینے کی حمایت میں قرارداد منظور کرچکی ہے اور حکومت سے کہا گیا تھا کہ اس مقصد کیلئے آئین کی شق183میں ترمیم لے کر آئیں،ترمیم کی تیاری کیلئے وقت درکار تھا اور اب بھی یہ تاثر غلط ہے کہ ہم جلد بازی میں بل منظور کرنا چاہتے ہیں۔وزیر قانون وانصاف اجلاس کی کارروائی کے دوران بار بار بل کی اتفاق رائے سے منظوری کی درخواست کرتے رہے تاہم پیپلزپارٹی،تحریک انصاف،جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم نے بل کی مخالفت جاری رکھی۔

چیئرمین کمیٹی نے بھی وزیرقانون کی درخواست پر اپوزیشن کو توجہ دینے پر زور دیا تاہم اپوزیشن جماعتوں نے مخالفت جاری رکھی اور بل کو حکومتی اراکین جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ،کرن حیدر،ایاز علی شیرازی،ممتاز احمد طارق،رجب علی بلوچ کی حمایت سے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔نوید قمر ایازسومرو،عارف علوی اور ایس اے اقبال قادری اپنے اختلافی نوٹ بھی تحریر کریں گے جو کہ رپورٹ کے ساتھ منسلک ہوں گے۔

سول معاملات میں پنچائت سسٹم کی بحالی کے بل’’ متبادل تنازعہ جاتی تصفیہ کے انتظام ‘‘ پر بھی کمیٹی میں غور کردیا گیا ہے،اس مقصد کیلئے ہر ضلع میں غیر جانبدار پینلزکی تشکیل ہوگی جس میں سبکدوش ججز،ریٹائرڈ ملازمین،وکلاء،علماء کرام،ٹیکنوکریٹس اور سول سوسائٹی سے اراکین نامزد ہوسکیں گے کوئی بھی فریق براہ راست بھی مصالحتی کمیٹی سے رابطہ کرسکے گا،کیس بھجوانے کا فیصلہ متعلقہ عدالت بھی کرسکے گی،پینل 30دنوں میں ثالثی کا پابند ہوگا،مزید پندرہ دن ٹائم فریم میں توسیع کی جاسکے گی اور پندرہ دنوں میں ہی عدالت ثالثی سے متعلق فیصلے کا اعلان اور ڈگری جاری کر دے گی،غیر جانبدار پینل کے اخراجات فریقین برداشت کریں گے،بل کی مزید خاندگی کے پیش نظر اسے آئندہ اجلاس تک موخر کردیا گیا ہے