طیبہ تشدد کیس کی تحقیقات مکمل ہونے تک دونوں متعلقہ ججز کو معطل ہونا چاہیے،چیئرمین سینٹ نے معاملہ ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کے سپرد کر دیا

رضا ربانی نے رواں ماہ قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر سمیت 4افراد کے لاپتہ ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے (آج) حکومت سے ایوان میں جواب طلب کر لیا طیبہ کیس کو صرف جوڈیشل سے وابستہ کرنا مناسب نہیں ہوگا، معاشرے کے مختلف مکاتب فکر کے ہاں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں ، سیالکوٹ میں بچوں کو زندہ جلایا گیا ہم نے اس کا نوٹس لیا مگر اس نوٹس کے باوجود پارلیمنٹ اس قسم کے واقعات میں اضافے کو روکنے میں ناکام رہا ہے ،ہم کوئی ایسا اقدام نہ کر سکے جس کی وجہ سے ایسے واقعات کو روکا جا سکے ، اس ایوان کے محافظ ہونے کی حیثیت سے بچوں کے ساتھ اس سلوک کے ساتھ میرا سرشرم سے جھکا ہوا ہے ، کہا گیا ہے کہ ریاست ہوگی ماں جیسی مگر لگ رہا ہے کہ ریاست بچوں کے لئے ’’ڈائن‘‘جیسی ہو گئی ہے ، معاشرہ بے حس ہے ، ہم بچوں کے دفاع میں ناکام رہے ہیں اور مجھ سمیت سب اس کے مجرم ہیں،چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی

پیر 9 جنوری 2017 22:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 09 جنوری2017ء) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے پیر کو سینٹ اجلاس کی کاروائی کے دوران آبزرویشن دے دی ہے کہ طیبہ تشدد کیس کی تحقیقات مکمل ہونے تک دونوں متعلقہ ججز کو معطل ہونا چاہیے ،انہوں نے یہ معاملہ ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کے سپرد کر دیا ہے ،میاں رضا ربانی نے رواں ماہ جنوری کے دوران قائداعظم یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سمیت 4افراد کے لاپتہ ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے (آج) منگل کو حکومت سے ایوان جواب طلب کر لیا ہے ۔

چیئرمین سینٹ نے واضح کیا ہے کہ مجھ سمیت سارے اراکین پارلیمنٹ بچوں پر تشدد نہ رکوانے کے مجرم ہیں ۔ اس امر کا اظہار انہوں نے 10سالہ طیبہ پر ایک جج کے گھر میں انتہائی بہیمانہ تشدد کے واقعہ پر ہونے والی بحث کے اختتام پر کیا ۔

(جاری ہے)

گزشتہ روز ایوان کی معمول کی کاروائی کو روک کر اس واقعہ پر بحث کروائی گئی ۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ طیبہ کیس کو صرف جوڈیشل سے وابستہ کرنا مناسب نہیں ہوگا، معاشرے کے مختلف مکاتب فکر کے ہاں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں ، سیالکوٹ میں بچوں کو زندہ جلایا گیا ہم نے اس کا نوٹس لیا مگر اس نوٹس کے باوجود پارلیمنٹ اس قسم کے واقعات میں اضافے کو روکنے میں ناکام رہا ہے ۔

ہم کوئی ایسا اقدام نہ کر سکے جس کی وجہ سے ایسے واقعات کو روکا جا سکے ، اس ایوان کے محافظ ہونے کی حیثیت سے بچوں کے ساتھ اس سلوک کے ساتھ میرا سرشرم سے جھکا ہوا ہے ، کہا گیا ہے کہ ریاست ہوگی ماں جیسی مگر لگ رہا ہے کہ ریاست بچوں کے لئے ’’ڈائن‘‘جیسی ہو گئی ہے ، معاشرہ بے حس ہے ، ہم بچوں کے دفاع میں ناکام رہے ہیں اور مجھ سمیت سب اس کے مجرم ہیں ۔

انہوں نے یہ معاملہ سینٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے اور ساتھ آبزرویشن دی ہے کہ اگرچہ سپریم کورٹ نے اس واقعہ کا نوٹس لیا ہے تاہم جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوتی جس جج کے گھر یہ واقعہ ہوا اسے اور جس جج نے اس بچی کو مک مکا کر کے دوسروں کے حوالے کیا دونوں کو کم ازکم معطل ہونا چاہیے تاکہ آزادانہ تحقیقات ہو سکیں ۔ چیئرمین سینٹ نے وقاص گورایا، آصف سعید، سلیم حیدر اور احمد رضا کے لاپتہ ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے قائد ایوان راجہ ظفر الحق کو ہدایت کی ہے کہ اس بارے میں آج وزیر داخلہ یا وزیر مملکت داخلہ امور کے ایوان میں پالیسی بیان کو یقینی بنایا جائے ۔

قبل ازیں اراکین سینٹر سحر کامران ، سینٹر عثمان سیف اللہ، سینیٹر خوش بخت شجاعت، سینیٹر سراج الحق، سینیٹر عثمان خان کاکڑ، سینیٹر میر کبیر خان ، سینیٹر حافظ حمد اللہ ، سینیٹر روبینہ خالد، سینیٹر اعظم سواتی، سینیٹر تاج حیدر اور دیگر نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ طیبہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے جبکہ حکمران جماعت کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان نے واضح کیا کہ انصاف کا ترازو جن کے ہاتھوں مین ہے انہوں نے یہ کام کیا ہے عدالت کے لئے یہ ٹیسٹ کیس ہے ، انصاف کے علمبرداروں کو یہ کام کرنے پر کس کہڑے پر کھڑا کیا جائے ، جج کے گھر میں قانون کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں آخر اس جج نے 10سالہ بچی کو ملازم کیوں رکھا، جرائم کی فہرست طویل ہے ، پارلیمنٹ کو نظر رکھنے کی ضرور ہے ، اگر اس معاملے پر ادھورا چھوڑدیا گیا تو سوموٹو نوٹس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔

تشدد کے اس واقعہ کے ذریعے متعلقہ ایڈیشنل جج نے نیا سال منایا ہے ۔ (اے ای)