سابق القاعدہ کمانڈر قاری سیف اللہ اختر مارا گیا

قاری سیف اللہ اختر صوبہ پکتیا میںفورسز سے جھڑپ کے دوران رات گئے ہلاک ہوا، افغان میڈیا

منگل 10 جنوری 2017 12:26

کابل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 جنوری2017ء) سابق القاعدہ کمانڈر قاری سیف اللہ اختر افغان صوبہ پکتیا میں فورسزسے جھڑپ کے دوران مارا گیا ۔افغان میڈیا کے مطابق سابق القاعدہ کمانڈر قاری سیف اللہ اختر صوبہ پکتیا میںفورسز سے جھڑپ کے دوران رات گئے مارا گیا ۔قاری سیف اللہ پاکستان اور افغانستان میں پرتشدد کاررائیوں میں ملوث تھاقاری سیف اللہ اختر پینتیس سال جہادی سرگرمیوں میں ملوث رہے انہیں ہائی پروفائل مقدمات میں گرفتار بھی کیا گیا لیکن کبھی انہیں کسی کیس میں سزا نہیں ہوئی۔

1958میں پیدا ہونے والے قاری سیف اللہ اختر نے کراچی کے جامعہ بنوری ٹان سے دینی تعلیم کی سند لینے کے بعد اسی کے عشرے کی اوائل میں جہادی سرگرمیاں شروع کیں۔قاری سیف اللہ کا اصل نام محمد اختر ہے اور سیف اللہ ان کا جہادی نام ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نی اپنے دو ہم کلاس مولانا ارشاد احمد اور مولانا عبد الصمد سیال کے ساتھ مل کر جمیعت الانصار الافغان یعنی افغان لوگوں کی دوستوں کے جماعت، قائم کی۔

اس گروہ نے حرکت انقلابِ اسلامی آف افغانستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ افغان تنظیم بھی ان کی طرح دیو بندی مکتب فکر کی تھی۔1988میں افغان جہاد کے خاتمے تک اس تنظیم میں شامل افراد کی تعداد ہزاروں میں ہوگئی تھی اور ان کا تعلق مختلف ممالک سے تھا۔ قاری سیف اللہ اختر افغانستان میں ایک تربیتی کیمپ بھی چلاتے رہے اور ان کے ساتھیوں کے مطابق تقریبا ساڑھے تین ہزار جہادی جنگجوں کو انہوں نے تربیت دی۔

قاری سیف اللہ اختر کو جاننے والے کہتے ہیں کہ وہ بہت چالاک ہیں اور آنے والے وقت کے حالات کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد وہ خاموشی سے افغانستان سے نکل کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آگئے۔ لیکن بعد میں دبئی چلے گئے جہاں انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا۔ لیکن امریکہ کہتا ہے کہ قاری سیف اللہ اختر القاعدہ کو مالی وسائل فراہم کرنے کا کام کرتا رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :