کے الیکٹر ک کو شنگھائی الیکٹرک کے حوالے کر نے سے قبل واجب الادا اربوں روپے واپس لیے جائیں،حافظ نعیم الرحمن

تمام تصفیہ طلب امور حل کیے جائیں ، 10سال کی بیلنس شیٹ پیش کی جائے ،نیپرا کی جانب سے اجازت طلب کر نے پر خط ارسال

منگل 10 جنوری 2017 23:08

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 جنوری2017ء) امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے نیپرا کی جانب سے کے الیکٹرک کی شنگھائی الیکٹرک کو فروخت کے سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے اجازت طلب کر نے پر بطور اسٹیک ہولڈر کراچی کے شہریوں کی نمائندگی کرتے ہوئے نیپرا کو جوابی خط ارسال کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ کے الیکٹرک کو شنگھائی الیکٹرک کے حوالے کر نے سے پہلے تمام تصفیہ طلب امور حل کیے جائیں ۔

گزشتہ دس سال کی کارکردگی جو کہ نااہلی اور ناقص کارکردگی ہے کی بیلنس شیٹ پیش کی جائے ۔نیپرا کی جانب سے کراچی کے صارفین کے حق میں جو فیصلے دیئے جا چکے ہیں ان کے مطابق مختلف مدات میں اربوں روپے کی رقم کے الیکٹرک کے ذمہ واجب الادا ہیں اس کی واپسی یقینی بنائی جائے ۔

(جاری ہے)

شنگھائی الیکڑک کے ساتھ ہونے والا معاہدہ تمام تفصیلات کے ساتھ نیپرا اپنی ویب سائٹ پر جاری کرے۔

واضح رہے کہ حافظ نعیم الرحمن نے گزشتہ سال کراچی کے عوام کی جانب سے نمائندگی کر تے ہوئے نیپرا میں بطور اسٹیک ہولڈر اور فریق بننے کی درخواست دی تھی جسے نیپرا نے منظور کیا تھا اور حافظ نعیم الرحمن نے نیپرا کے کئی اجلاسوں میں کراچی کے عوام کا مقدمہ بڑی جرأ ت مندی اور دلائل کی بنیاد پر لڑا اور کے الیکٹرک کے حوالے سے اصل حقائق اوردرست اعداد و شمار دوٹوک انداز میں پیش کیے ۔

حافظ نعیم الرحمن نے نیپرا کو لکھے گئے حالیہ خط میں کہا ہے کہ امید ہے کہ عوامی تحفظات اور اصل حقائق کی روشنی میں کے الیکٹرک کو کلین چٹ نہیں دی جائے گی اور کراچی کے شہریوں کے ساتھ ہو نے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے گا۔ حافظ نعیم الرحمن نے اپنے خط میں واجب الادا رقوم کی مدات کا ذکر کر تے ہوئے کہا کہ اضافی ملازمین کی مدمیں 15پیسے فی یونٹ مسلسل وصول کیے جاتے رہے جبکہ کے الیکٹرک نے 2010-11میں ڈائون سائزنگ کر کے اضافی ملازمین نکال دئے تھے۔

اس میں مد میں 35ارب روپے وصول کیے جاچکے ہیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے ۔کلاء بیک (Claw back)کے 17ارب روپے۔ڈبل بینک چارجز کی13۱رب روپے۔میٹر رینٹ کے 11ارب روپے۔حکومت کی طرف سے کراچی کے صارفین کو فراہم کردہ 5ارب روپے کی سبسڈی جو آج تک کراچی کے صارفین کو منتقل نہیں کی گئی شامل ہے ۔ علاوہ ازیں سوئی سدرن گیس کے 67ارب روپے اور NTDCکے 51ارب روپے اسی طرح دیگر اداروں کے اربوں روپے کی واجب الادا رقم کے الیکٹرک سے وصول کی جائے۔

حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کے الیکٹرک نے گزشتہ تین سالوں میں 100ارب روپے سے زائد منافع کمایاہے ۔ اس پر ٹیکس وصول کیا جائے ۔ کراچی کے صارفین پر تمام اوور بلنگ کیس کو اکٹھا کر کے انہیں ختم کیا جائے۔کے الیکٹرک کی ناقص کارکردگی کی بنیاد پر نیپرا نے اب تک جتنے جرمانے عائد کئے ان تمام جرمانوں کی رقم وصول کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کی گذشتہ دس سال کی کارکردگی کی بیلنس شیٹ عوام کے سامنے پیش کی جائے۔

معاہدہ کے مطابق اب تک بجلی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے مطلوبہ سرمایہ کاری کیوں نہیں کی گئی معاہدے کے مطابق بجلی کی پیداوری استعداد میں اضافہ کیوں نہیں کیا گیا اب تک حکومت سے جن مدات میں سبسڈی حاصل کی ہے ان کی تفصیلات اور آڈٹ رپورٹ پیش کی جائے۔انہوں نے کہاکہ اپنے پلانٹس بند رکھ کر وفاق اور دیگرIPPsسے مہنگی بجلی کی فراہمی اور دانستہ طور پر کراچی میں لوڈ شیڈنگ کرنابدترین کرپشن ہے۔

کراچی کے صارفین غیراعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ اور آئے دن فیڈرز ٹرپ ہونے اور دیگر فالٹز کی وجہ سے بجلی نہ ہونے سے تنگ آچکے ہیں۔ کے ۔ الیکٹرک کے IBC دفاتر کراچی کے صارفین کے لیے ٹارچرز سیل بن چکے ہیں۔ یہ دفاتر اوور بلنگ کے ذریعے صارفین سے جبری بھتہ وصول کر رہے ہیں۔ صارفین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ شنگھائی الیکٹرک کے 9 ارب ڈالرز کے بزنس پلان برائی(2017-30) اور کے الیکٹرک کا ملٹی ایئر ٹیرف(2016-20) کے حوالے سے 498 ارب روپے کے بزنس پلان اور ان پر عمل درآمد کی تفصیلات بتائی جائیں اور یہ بھی بتا یا جائے کہ کراچی کے شہری کب اور کیسے لوڈ شیڈنگ ، مہنگی بجلی اور اوور بلنگ کے دہرے عذاب سے نجات پا سکیں گے۔

متعلقہ عنوان :