پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے بعدنیب آرڈیننس جاری کیا جانا سمجھ سے بالاتر ہے ،ْ پی ٹی آئی کا آرڈیننس واپس لینے کا مطالبہ

نیب ترمیمی آرڈیننس پارلیمانی کمیٹی کی توہین ہے ،ْ شاہ محمود قریشی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے دوران گفتگو حکومت نے جلد بازی میں نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کیا ،ْ بہت سی خامیاں ہیں ،ْآفتاب احمد خان شیر پائو اپوزیشن نے نیب ترمیمی آرڈیننس سے اتفاق نہ کیا تو تبدیلی کی جاسکتی ہے ،ْ نیب قانون پر اپوزیشن کی تمام تجاویز کا جائزہ لیا جائیگا ،ْزاہد حامد آرڈیننس کے ذریعے پلی بارگین اور رضا کارانہ واپسی کے قانون کا خاتمہ وقت کی ضرورت تھی،نیب آرڈیننس کو متنازع نہ بنایا جائے ،ْعبد القادر بلوچ

بدھ 11 جنوری 2017 17:36

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 جنوری2017ء) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے نیب ترمیمی آرڈیننس واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے بعد صدارتی آرڈیننس جاری کیا جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ شاہ محمود قریشی کی جانب سے یہ مطالبہ نیب قانون کا از سر نو جائزہ لینے کیلئے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں سامنے آیا۔

بدھ کو پارلیمانی کمیٹی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر قانون زائد حامد کو کمیٹی کا چیئرمین منتخب کرلیا گیا۔شاہ محمود قریشی نے نیب ترمیمی آرڈیننس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے بعد صدارتی آرڈیننس جاری کیا جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نیب ترمیمی آرڈیننس پر نظرثانی کے لئے تیار ہے تو پھر اسے واپس لے لیا جائے۔

انہوںنے کہاکہ نیب ترمیمی آرڈیننس پارلیمانی کمیٹی کی توہین ہے۔اس موقع پر آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ حکومت نے جلد بازی میں نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کیا، اس میں بہت سی خامیاں ہیں، اگر ہمت ہے تو احتساب قانون میں ججز اور جرنیلوں کو بھی شامل کیا جائے۔اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر ہمت نہیں ہے تو پھر فاتحہ پڑھ لیتے ہیں۔کمیٹی کے اجلاس میں وزیر قانون زاہد حامد ترمیمی آرڈیننس کا دفاع کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ پلی بارگین کے معاملے پر بہت زیادہ تنقید ہورہی تھی،سپریم کورٹ نے رقم کی رضاکارانہ واپسی کے عمل کو بھی معطل کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے احتساب کے معاملے پر عوام کے نام کھلا خط لکھا ،ْاپوزیشن نے نیب ترمیمی آرڈیننس سے اتفاق نہ کیا تو اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہی،ْ نیب قانون پر اپوزیشن کی تمام تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پلی بارگین اور رضا کارانہ واپسی پر پہلے سے اتفاق ہوگیا تھا ،ْیہ غلط قانون تھا جس کے خاتمہ کے لئے آرڈیننس لائے ،ْ سپریم کورٹ میں بھی اس قانون پر تنقید ہوئی اور واضح موقف اختیار کرنے کا کہا گیا۔

زاہد حامد نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے آبزرویشن اور احکامات وزیراعظم کے نوٹس میں لائے اور پھر کابینہ کی منظوری کے بعد آرڈیننس لایا گیا۔پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے رکن نوید قمر نے آرڈیننس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جب کمیٹی بن گئی تھی تو پھر آرڈیننس کیوں لایا گیا۔اس پر زاہد حامد نے کہا کہ کمیٹی کو مکمل اختیارات ہوں گے اگر کمیٹی کو کچھ پسند نہ آیا تو ترمیم کی جاسکتی ہے،اپوزیشن نیب ترمیمی آرڈیننس میں ترامیم کرنا چاہے تو ہم تیار ہیں۔

کمیٹی کے رکن عبدالقادر بلوچ نے موقف اپنایا کہ نیب قوانین پر نظرثانی میں وقت لگتا لیکن آرڈیننس کے ذریعے پلی بارگین اور رضا کارانہ واپسی کے قانون کا خاتمہ وقت کی ضرورت تھی،نیب آرڈیننس کو متنازع نہ بنایا جائے۔سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ احتساب کے عمل سے کسی کو بالاتر نہیں ہونا چاہیے ،ْکوئی سیاسی جماعت ہو یا ادارہ احتساب سب کا ہونا چاہئے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے جاوید عباسی کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جرنیلوں اور عدلیہ کا بھی احتساب ہونا چاہئے ،ْصرف سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے احتساب سے قانون مکمل نہیں ہوگا۔انہوں نے نیب قانون پر نظر ثانی کیلئے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر نظرثانی کا بھی مطالبہ کردیا اور کہا کہ ٹی او آرز پر نظرثانی کرتے ہوئے اداروں کا احتساب بھی ہونا چاہئے۔

پارلیمانی کمیٹی کمیٹی کا آئندہ اجلاس 17 جنوری کو ہوگا جو ان کیمرہ ہوگا۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بلاامتیاز احتساب کا قانون لانیکی کوشش کریں گے، ہم چاہتے ہیں کہ احتساب قانون میں عوامی رائے بھی لی جائے، احتساب پر نیا قانون لانے کی ضرورت ہے۔انہوںنے کہاکہ اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ احتساب کمیٹی نیب آرڈیننس کی پابند نہیں ہوگی اور فیصلہ کیا گیا کہ کمیٹی اٹھارویں ترمیم کے طرز پر کام کرے گی۔انہوں نے کہا کہ پارلیمانی احتساب کمیٹی کی تشکیل کیساتھ ہی نیب آرڈیننس لانیکی کیا ضرورت تھی ،ْکرپشن آج قومی ایشو ہے جس پر بحث جاری ہے، نیب و دیگر قوانین کے باوجود کرپشن کم نہیں ہوئی۔