چیئرمین سینیٹ نے طلبہ یونین پر پابندی کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیدیا،یونینز انتخابات کیلئے قانون سازی کا فیصلہ

سینیٹ میں مشترکہ قرارداد منظور کی جائے گی ،پارلیمنٹ اس معاملے پر قانون سازی کر سکتی، قرارداد کی منظور ی کے ساتھ اور راہنماء اصول طے کرسکتی ہے ،اداروں کے درمیان مکالمے کا سلسلہ جاری رہے گا چیئرمین سینٹ رضا ربانی کی طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف سینٹ کی یوان کی کمیٹی کے اجلاس کے دوران رولنگ طلبہ یونین کی بحالی کے لئے چیئرمین سینیٹ کی دو ہفتوں میں سینیٹ سیکرٹریٹ کو قرارداد تیار کرنے کی ہدایت جاری حکومتی اتحادی جماعت جمعیت علمائے ف نے طلبہ یونین کی بحالی کی مخالفت کر دی

جمعرات 12 جنوری 2017 15:12

چیئرمین سینیٹ نے طلبہ یونین پر پابندی کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیدیا،یونینز ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 12 جنوری2017ء) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے عدالت عظمیٰ کے 1993 ء کے طلبہ یونین پر پابندی کے فیصلے کو غیر آئینی قراردیا ، طلبہ یونینز کے انتخابات ے لئے قانون سازی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اس بارے میں سینٹ آف پاکستان میں مشترکہ قرارداد منظور کی جائے گی ،پارلیمنٹ اس معاملے پر قانون سازی کر سکتی قرارداد کی منظور ی کے ساتھ اور راہنماء اصول طے کرسکتی ہے ۔

اداروں کے درمیان مکالمے کا سلسلہ جاری رہے گا ۔طلبہ یونین کی بحالی کے لئے چیئرمین سینٹ نے دو ہفتوں میں سینٹ سیکرٹریٹ کو قرارداد تیار کرنے کی ہدایت جاری کردی ۔ یہ رولنگ انہوں نے جمعرات کو طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف سینٹ کی پورے ایوان کی کمیٹی کے اجلاس کے دوران دی ۔

(جاری ہے)

جبکہ حکومتی اتحادی جماعت جمعیت علمائے ف نے طلبہ یونین کی بحالی کی شدیدمخالفت کر دی ۔

جمعرات کو پورے ایوان کی کمیٹی کا اجلاس چئیرمیں سینٹ کی صدارت میں حسب معمول سینٹ ہال میںہوا ۔ رضا ربانی نے بتایا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر بندش کے حوالے سے ہم نے وائس چانسلرز فیڈرل کیپٹل کو مدعو کیا تھا لیکن وہ نہیں آے ،رضا ربانی نے کہا کہ اس معاملے پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں سپریم کور ٹ کے ایک فیصلے کے پیچھے چھپ رہی ہے ۔

طلبہ کی یونین سازی پر پابندی ہٹانے کے حوالے سے میرے زہن میں دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ قانونی سازی کا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ کہ سپریم کورٹ سے درخواست کی جاے کہ وہ طلبہ یونین پر پابندی کے حوالے سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر یں یہ پابندی 25سال قبل لگادی گئی تھی .سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ایک فیصلہ آیا جب کو ئی بچہ کالج میں داخل ہو گا تو اسکے والدین بیان حلفی دیں گے۔

کہ بچہ کسی یونین کا حصہ نہیں بنے گا۔سیاست سپریم کورٹ کا کام نہیں یہ کا پارلیمنٹ کا ہے۔میری رائے ہے کہ ہم قانون سازی کریں سپریم کورٹ نہیں جائیں۔انہوں نے کہا کہ حالات بدل گئے ہیں مگر تاحال نظر ثانی کا اختیار بھی سپریم کورٹ کے پاس ہے ۔ اس معاملے پر سیاستدانوں کو پیش رفت کرنی چاہیے۔ ہمار ا قانون صوبوں کے لئے ماڈل ہوگا۔ قانون کے ساتھ ضابطہ اخلاق بھی بنا دیں۔

ہم جو بھی فیصلہ کریں گے وہ وفاق کے لئے ہو گا مگر صوبائی نمائندوں کی موجودگی کی وجہ تک اس کا اثر صوبوں پر ہو گا طلبہ یونین کو سیاست کی اجازت ہونی چاہیے مگر کوڈ آف کنڈکٹ بھی دینا ہو گا۔سینٹر ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ طلبہ یونیز پر پابندی عائد کرکے سرمایہ کاروں کے لئے راہ ہموار کی گئی۔پابندی کی وجہ سے نظریاتی سیاست کا راستہ بند کیا گیایہ فیصلہ آئین کے متصادم ہے سیاست میں جانا کوئی جرم ہے کیا ہمیں سپریم کورٹ نظر ثانی کی اپیل میں جانے کی ضرورت نہیںہے انہوںنے کہا میری وکالت کو چالیس سال ہوگئے ہیں مگر کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیکھا جو 30 سالوں تک نظرثانی کے لئے لٹکا رہے۔

دس لاکھ تعلیمی اداروں کے طلبہ کے حقوق کا معاملہ ہے۔ یہ ایوان قرارداد منظور کر کے صوبوں کو بھیج دے۔ ہر کوئی اپنی بات کرتا ہے مگر غریب مزدور اور طلبہ کی بات کوئی نہیں کرتا۔انہوں نے کہا کہ لیبر یونین اور تحریکیوں کا تمام مواد مطالعہ پاکستان میں موجود اور پورے پاکستان میں پڑھایا جارہا ہے طلبہ یونین تمام تعلیمی اداروں میں ہونی چاہیے اور ان کا الیکشن ہونا چاہیے فیصلے کے مطابق طلبہ یونین کے نام کیساتھ جھگڑا ہے مگر بین نہیں کیا گیا۔

ہمیں اس حوالے سے قانون سازی کرنی ہو گی ۔اس فیصلے کے بعد تعلیمی اداروں میں جو ماحول بنایا گیا اس سے وفاق کو کمزور کیا گیا۔سینٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ تحریک پاکستان میں طلبہ نے اہم کردار ادا کیا۔علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ نے اس وقت جدوجہد آزادی میں حصہ لے کر آزادی دلانے میں کردار ادا کیا۔ چیئرمین آپ کو اس فیصلے کے حوالے سے سپریم کورٹ کو خط لکھنا چاہیے ۔

اقوام متحدہ کا منشور بھی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ طلبہ یونین سازی کر سکتے ہیں۔سینٹر کریم احمد خواجہ نے کہا ہمیں قانون سازی کرنا ہو گی پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں بھی طلبہ یونین سازی ہونی چاہیے۔طلبہ یونین کا راستہ روکا گیا تو پاکستان القاعدہ اور داعش بن جائے گا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) سینٹر عبدالقیوم نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہمارے تحفظات ہیں تو ہمیں اسے زیر بحث لانا چاہیے۔

حکومت اور اپوزیشن کو ملکر نظر ثانی کے لئے جانا چاہیے۔پیپلز پارٹی کے سینٹر تاج حیدر نے کہا پابندی اپنی جگہ مگر تمام تعلیمی اداروں میں سیاسی ونگز موجود ہیں۔ اس کے علاوہ فرقہ وارانہ ونگز بھی کام کر رہے ہیں۔قائداعظم نے نوجوانوں کو سختی سے منع کیا کہ تم مسلک کی بنیاد پر تقسیم نہ ہوں انہوں نے کہا قائد اعظم کی واحد تحریک تھی جس میں مسلک کی جھلک نظر نہیں آئی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ طلبہ یونین کو پر امن انداز میں چلائیں اور مہذب انداز سے چلیںرینجرز کی موجودگی کراچی یونیورسٹی میں میرے آنے کی خوشی میں ہوائی فانرنگ کی ۔

یونیورسٹی انتظامیہ کا کام ہے کہ ماحول کو بہتر بنائیں فائرنگ اور تصادم کو روکیںہمیں یونیورسٹی انتظامیہ کو مضبوط اور بااختیار بنانا ہو گا۔انہوں نے کہا ہمیں قرارداد کے ذریعے اس معاملے کو حل کرنا ہو گا۔ وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ میر حاصل بزنجو نے کہا کہ طلبہ یونین کے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلیٰ معیار مقرر تھا اور یہ معیار اور اہلیت اتنی سخت تھی کہ کوشش کے باوجود میں خود طلبہ یونین کے انتخابات میں حصہ نہ لے سکا کیونکہ اس کے لئے طلبہ کا تمام مضامین میں پاس ہونا لازمی تھے۔

انہوں نے کہا تعلیمی اداروں میں منصوبہ بندی کے تحت ایک لڑائی شروع کروائی گئی اس کے بعد پابندی عائد کی گئی ہمارے پاس اپنے دور میں سگریٹ پینے کے پیسے نہیں ہوتے تھے تعلیمی اداروں میں اسلحہ اور منشیات کہاں سے آئی۔ ہر یونیورسٹی اور کالج کے پاس کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے ہمیں صرف اجازت دینا ہوگا۔طلبہ تنظیموں کا کام سیاسی قیادت دینے کے علاوہ روزانہ کے مسائل بھی حل کرنا ہے ۔

جتنے طلبہ تنظیموں کے صدور آئے وہ پڑھے لکھے تھے غنڈے نہیں تھے۔انہوں نے کہا سب کی تنظیمیں ہیں صرف طلبہ سے یہ حق ہم نے لے لیا۔قوم پرست سینٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا طلبہ کی سیاست پر کسی صورت پابندی نہیں ہونی چاہیے۔سینٹ قانون سازی کی سفارش کرے اور قومی اسمبلی بھی متفق ہو تو متفقہ قانون سازی ہو سکتی ہے۔ہر صورت فرقہ واریت کو روکنے کے لئے اقدام اٹھانا ہوگا تاکہ نفرت انگیز مواد نہ پھیل سکے۔

سینٹر نہال ہاشمی نے کہا ہم آئین ساز ادارہ ہیں یہ اچھا موضوع ہے جسے سب بھول چکے تھے۔ہمیں قرارداد کے ذریعے پیغام دینا ہو گا تمام صوبوں کو خط لکھنا ہو گا ۔ ہم نے سیاسی جماعتوں کی طلبہ تنظیموں پر پابندی نہیں لگائی جمہوریت پر پابندی عائد کی ۔ انہوں نے کہا اس پارلیمنٹ کو اچھے لوگ ملے طلبہ تنظیموں کی وجہ سے ملے ۔انہوں نے کہا خوف زدہ اس وقت آمر تھا اس نے اپنے خوف کو ختم کرنے کے لئے یہ کام کیا۔

طلبہ سرگرمیاں ختم ہوئیں تو انہوں نے کیٹ واک کے لئے ایان علی کو بلایا یا داعش کی طرف چلے گئے ا عجاز شفیع سے لیکر جاوید ہاشمی تک قابل لوگ اس وقت طلبہ یونین کے روح روا ں رہے۔ اگر آپ نے طلبہ یونین بحال نہیں کرنی تو تمام تنظیموں پر پابنذی عائد کر دیں ۔آج رینجرز کا رویہ تضحیک آمیز ہے جس کی وجہ سے طلبہ میں وردی والوں کیخلاف نفرت پھیل رہی ہے۔

انہوں نے کہا طلبہ کی یونین سرگرمیوں پر پابندی کے ذریعے جان بوجھ کر وردی والوں کیخلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے ۔سینٹر عثمان کاکٹر نے کہا پارلیمنٹ اور جمہوریت کی نرسریوں کو آمروں نے ختم کیا ۔عدالت نے آمر کے دباؤ میں آکر ایسا فیصلہ دیا۔انہوںنے کہا منشیات اور اسلحہ کا فروغ طلبہ یونیز نہ ہونے کی سے ہورہاہے ۔قانون سازی سے قبل سیمینار کا انعقاد ہونا چاہیے۔

سینٹر شاہی سید نے کہا ایسے سب سنجیدہ بیٹھے ہیں جیسے آج پابندی لگی پابندی بہت پہلے لگی تھی۔ عدالت نے نظریہ ضرورت کی وجہ سے یہ فیصلہ دیا۔یہ ناممکن ہے کہ نرسیاں نہ ہو اور خوبصورت گلشن بن جائے اور یہ ماحول بنا دیا گیا کہ دل دھڑکنے پر بھی پابندی لگا دی جائے راستہ پوچھنے پر سز دے دی جائے اور پھول دیکھ کر گولی چلا دی جائے انہوں نے ان اشعار پر مبنی پوری نظم ایوان میں پڑھ دی جو وہ لکھ کر لائے تھے اور کہا مرنے کے خوف سے جینا نہیں چھوڑا جاسکتا۔

سینٹر میاں عتیق نے کہا کہ قرارداد منظور کی جائے اور سینٹ رہنماء اصولوں کا بھی اعلان کر دے۔ انہوں نے کہا ہم گورڈن کالج سے پڑھے ضیاالحق کو اس وقت گورڈن کالج برا لگتا تھا۔مہذب معاشروں میں طلبہ کونسلز موجود ہیں جو طلبہ کے مسائل کرتے ہیں ۔ہمیں قرارداد کے ذریعے اس کا تدارک کرنا ہو گا۔مسلم لیگ ن کے رہنماء سینٹر چودھری تنویر نے رائے دی کہ اس معاملے پر اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنا دی جائے ۔

پنیر ی لگے بغیر گلشن آباد نہیں ہوسکتا۔ ہر چیز میں خامیاں اور کمزوریاں ہوتی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں تمام جماعتوں کے ونگز کام کر رہے ہیں۔قائد اعظم یونیورسٹی میں لسانی بنیادوں پر کونسلز بنی ہیں جو وفاق کے لئے خطرناک ہیں۔بھارت میں ہمارے جیسے حالات تھی وہاں بھی کمیٹی نے اپنی سفارشات مرتب کرکے پارلیمنٹ کو دیں۔ہم اعلی سطحی کمیٹی بنائیں اسکی سفارشات پر عمل کیا جائے۔

مسلم لیگ ن کے سینٹر جاوید عباسی نے کہا ہمیں اس معاملے کو آگے لیکر جانا چاہیے۔اس کو موخر کرکے ایک خط سپریم کورٹ کو لکھا جائے۔پارلیمنٹ نظر ثانی کی اپیل میں نہیں جاسکتی حکومت جاتی ہے ۔سپریم کورٹ میں ماحول تبدیل ہے انکا موقف بھی لیا جانا چاہیے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل ڈپٹی چئیرمین سینٹ مولانا عبدالغفوری حیدری نے طلبہ یونین کی بحالی کی مخالفت کر دی اور سوال اٹھایا کہ طلبہ یونینز پر پابندی کیوں لگی۔

آمر کے بعد جمہوری حکومتیں آئیں انہوں نے کیوں نہ سوچا ۔ہمارے بچوں کو پڑھنے دیا جائے جب عالم فاضل بنیں گے تو سب سمجھ جائیں پابندی ختم کرنے سے تشدد دوبارہ شروع ہو جائے گا ماضی میں بلوچستان یونیورسٹی میں ہمارا مرکز ی صدر قتل ہوا۔چئیرمین سینٹ نے کہا آپ یونیز کیخلاف ہے یہ الگ بات ہے یہ بتائیں ہم سپریم جائیں یا قرارداد لائیں اس پر تمام اراکین رائے دیں۔

سردار اعظم موسی خیل اور نثار محمد خان نے بھی پارلیمنٹ میں قانون بنانے اور قرارداد لانے کی حمایت کی۔ لیفٹیننٹ جنرل( ر) صلاح الدین ترمذی نے کہا کہ اس معاملے کو سرد خانے کی نظر نہ کریں ہمیں خود قانون بنانا چاہیے۔ سینٹر میر کبیر نے رائے دی کہ سینٹ کی سفارش کے ساتھ سپریم کورٹ کو خط لکھ دیں اور جو جواب آئے اس کے بعد اپنا لائحہ عمل طے کریں ۔

سینٹر سلیم ضیاء نے کہا کہ طلبہ یونین کی بحالی کا قانون ہمیں خود بنانا چاہے۔ مسلم لیگ ن کی سینٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ ہمیں پارلیمنٹ کو اہمیت دینی چاہیے اسے موخر نہیں کرنا چاہیے۔اجلاس کے آخر میں چئیرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے اعلان کیا کہ سپریم کورٹ میں ایم اسماعیل قریشی و محمد اویس قاسم کی درخواست سے متعلق سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا1993 کا وہ فیصلہ غیر آئینی ہے۔

پارلیمنٹ اس معاملے پر قانون سازی کر سکتی قرارداد منظور اور راہنماء اصول طے کرسکتی ہے ۔اداروں کے درمیان مکالمے کا سلسلہ جاری رہے گا ۔طلبہ یونین کی بحالی کے لئے چیئرمین سینٹ نے کہا کہ جو اراکین تجاویز دینا چاہیے وہ بعد میں بھی آگاہ کر دیں انہوں نے طلبہ یونین کی بحالی کے لئے دو ہفتوں میں سینٹ سیکرٹریٹ کو قرارداد تیار کرنے کی ہدایت جاری کردی۔