نیشنل ایکشن پلان کو دینی طبقوں علماء طلبا اور دینی مدارس کے خلاف استعمال کرنا ا متیازی سلوک ہے ، یہ سلسلہ جاری رہا تو محب وطن علماء مذہبی کارکن ،غیور مسلمان اسے مسترد کردیں گے ، فورتھ شیڈول کے ظالمانہ قانون کو علماء کے تبلیغی ،تعلیمی سرگرمیوں کے خلاف استعمال کرنا بند ، ماورائے قانون گرفتار علماء طلبا کو فوری طور پر رہا کیا جائے

جمعیت علماء اسلام (س) اور دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ مولانا سمیع الحق کا پشاور میں تحفظ علماء و مدارس کنونشن سے خطاب

جمعرات 12 جنوری 2017 19:35

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 12 جنوری2017ء) جمعیت علماء اسلام (س)کے سربراہ اور دفاع پاکستان کونسل کے امیر مولانا سمیع الحق نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان کو دینی طبقوں علماء طلبا اور دینی مدارس کے خلاف استعمال کرنا ایک شرمناک امتیازی سلوک ہے ، اگر یہ سلسلہ جاری رکھا تو محب وطن علماء مذہبی کارکن ،غیور مسلمان اسے مسترد کردیں گے ، مولانا نے مطالبہ کیا کہ فورتھ شیڈول کے ظالمانہ قانون کو علماء کے تبلیغی ،تعلیمی سرگرمیوں کے خلاف استعمال کرنا بند کیا جائے ، اور ماورائے قانون گرفتار علماء طلبا کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔

مولانا سمیع الحق یہاں پشاور میں تحفظ علماء و مدارس کنونشن سے خطاب کررہے تھے ،پشاور کے پردہ باغ میں منعقدہ اس عظیم کنونشن میں کے پی کے کے تمام اضلاع کے علاوہ بلوچستان ،کراچی ،لاہور وغیرہ سے بھی ہزاروں کی تعدا دمیں علماء مہتممین مدارس اور جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

مولانا نے کہاکہ موجودہ عدالت کے نظام نہ ملک کو کرپشن سے پاک کرسکتی ہے نہ مظلوموں کو انصاف فراہم کرسکتی ہے۔

مولانا سمیع الحق نے کہاکہ موجودہ حکمرانوں نے ربا (سود) کے تحفظ پر لگے ہوئے ہیں، اور بیرونی دبائو پر ملک کو سیکولر اور لبرل بنایا جارہاہے۔ جبکہ جمعیت اس ملک کے اسلامی تشخص کو ہر لحاظ سے تحفظ کرے گی، مولانا سمیع الحق نے امریکہ میں گرفتار مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے سلسلہ میں حکومت کی کوتاہی اور سردمہری پر سخت غم غصہ کا اظہار کیا اور کہاکہ امریکہ اس معاملہ کو صدر اور وزیراعظم کے خط لکھنے کا کہہ کر لچک کر مظاہرہ کیا مگر حکمران اس معاملہ میں بھی شرمنا ک خاموشی اختیار کئے رکھی۔

کنونشن سے ملک کے ممتاز علماء اور پارٹی رہنماؤں نے خطاب کیا ، جمعیت کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالرؤف فاروقی نے کہاکہ جمعیت علماء اسلام وہ واحد جماعت ہے جنہوں نے نہ کبھی لبرل اور سیکولر حکومتوں کا ساتھ دیا ہے اور نہ کبھی مفادات کے حصول کے لئے جدوجہد کی ہے بلکہ ہمیشہ خالص شریعت کے لئے اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے جدوجہد کو ترجیح دی ہے ۔

مولانا عبدالرؤف فاروقی نے کارکنوں کو کہاکہ وہ اپنے آپ کو منظم کریں،اور شریعت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کا مقابلہ کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں۔ مرکزی نائب امیر مولانا بشیر احمد شاد نے کہاکہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کی ایک خالق جماعت ہے ،سب سے پہلے ہلالی پرچم کو جمعیت کے امیر مولانا شبیر احمد عثمانی نے لہرایا تھا اور اب بھی اس ملک کی بقا اور سالمیت اور استحکام کے لئے سب سے زیادہ ذمہ داری جمعیت علماء اسلام کی بنتی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ تمام لادینی قوتیں ایک طرف ہیں لیکن جمعیت علمائے اسلام مولانا سمیع الحق کی قیادت میں باطل قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ جمعیت کے مرکزی نائب امیر مولانا حامد الحق حقانی نے کہاکہ جمعیت علماء اسلام ایک نظریاتی جماعت ہے، مغرب اوراس کے ایجنڈے دینی مدارس اور علماء پر پابندیوں کے خلاف ہر موقع پر علمائے دیوبند کی ترجمانی اسی جماعت نے کی ہے ، اور ان شا ء اللہ آئندہ بھی قائد جمعیت مولانا سمیع الحق کی قیادت میں ان طاغوتی قوتوں کے خلاف کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔

مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری شاہ عبدالعزیز مجاہد نے کہاکہ ہمارا مقصد قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں تک پہنچنا نہیں ہے، بلکہ اس ملک میں اللہ اور اللہ کے رسول کا قانون نافذ کرنا ہے۔ ایسی سیٹوں پر اور جمہوریت پر ہم لعنت بھیجتے ہیں جس میں ہم اللہ اور رسول کو راضی نہ کرسکیں۔جمعیت کے مرکزی نائب امیر مولانا سید یوسف شاہ نے صدارت سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سی پیک کے بارہ میں مرکزی حکومت نے قوم کو دھوکے میں رکھا ہوا ہے، مغربی روٹ سے انحراف بلوچستان اور کے پی کے کے محرومیوں میں اضافہ کا سبب بنے گا۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ اے پی سی کے فیصلوں پر عمل درآمد کرکے تمام صوبوں کو منصوبے کے برابر کے فوائد سے نوازا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت فاٹا کے انظمام کے بارہ میں مختلف موقف سامنے آرہے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کا یہ موقف ہے کہ سب سے پہلے متاثرین کو باعزت طریقے سے واپس بھیجا جائے، اس کے بعد ریفرنڈم کے ذریعے سے ان کی رائے معلوم کی جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، کنونشن سے صوبہ سند ھ کے امیر مولانا قاری عبدالمنان انور ،حافظ احمد علی، صوبہ بلوچستان کے مولانا عبدالحلیم ،مولانا عبدالقیوم میرزئی،مفتی عبدالواحد ،لاہور کے مولانا احمد علی ثانی، مولانا عبدالخالق ہزاروی، مولانا محمد اسرائیل،مولانا سید چراغ الدین شاہ، اوردیگر نے خطاب کیا۔

کنونشن میں ایک قرارداد میں قبائل کے مستقبل کا فیصلہ کرنے سے قبل ان کی مکمل بحالی اور قبائلی عوام سے ریفرنڈم کا مطالبہ کیا گیا۔ ایک قرارداد میں سی پیک کے سلسلہ میں یہ حکمرانوں کی صوبہ کے پی کے اور بلوچستان کے سلسلہ میں دوغلی پالیسی پر غم و غصہ کا اظہار کیا گیا ، اور کہاکہ پنجاب اسمبلی کے تحفظ حقوق نسواں بل اور سندھ اسمبلی میں اٹھارہ سال سے کم عمر پر اسلام لانے کی پابندی کا بل کی مذمت کی گئی اور اسے آئین پاکستان سے روگرادانی قرار دیا گیا ۔

ایک قرارداد میں افغانستان میں برسرپیکا ر آزادی اور نظام اسلام کے لئے جہاد کرنے والی طاقتوں کی جدوجہد کو سراہا گیا، اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ بیرونی دباؤ اور سازشوں کی وجہ سے طالبان سے محبت واعتماد کو کسی حال میں مجروح نہ ہونے دیں۔انہوں نے بڑی طاقتوں کی سازشوں کو ناکام بناکر پوری امت کی لاج رکھ لی اور جو مستقبل میں بھی پاکستان کے بازوئے شمشیر زن ہوں گے ۔

پاکستان ڈنکے کی چوٹ پر ان کی پشت پناہی جاری رکھے۔ایک قرارداد میں رسوائے زمانہ دشمن پاکستان ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر قائد اعظم یونیورسٹی کا انتساب اسلام اور پاکستان دشمنی کی غمازی کررہے ہیں ان احکامات کو فوراً واپس لیا جائے۔ قرارداد میں کہاگیا کہ موجودہ عدالتی نظام قوم کوانصاف اور سیاسی نظام ملک کو امن اور استحکام دینے میں ناکام ہوگیا ہے ، اسے سمیٹ کر اسلامی شریعت کے مطابق خلافت راشدہ کا نظام نافذ کیا جائے۔

حکومت پاکستان نے شام ،کشمیر ،افغانستان،فلسطین ،برما کے مسلمانوں کو بے یارومددگار چھوڑ رکھا ہے ،حکومت کو چاہیے کہ وہ ان تمام مظلوم مسلمانوں کے بارہ میں واضح موقف اپنائے۔ کانفرنس میں تمام علما اور شرکا ئے کنونشن نے دینی مدارس اور مساجد کے تحفظ کے لئے قائد جمعیت مولانا سمیع الحق کی ہاتھ پر بیعت کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ مدارس کے دفاع کے لئے ہم مولانا سمیع الحق کے ساتھ اس تحریک میں شانہ بشانہ شامل ہیں۔