میرکل کے ساتھ سیلفی بنانے والے مہاجر کا فیس بک پر مقدمہ

سیلفی لگانے کے بعدفیس بک پر جعلی خبروں میں دہشت گرد اور مجرم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے،مہاجر کی گفتگو

جمعہ 13 جنوری 2017 13:28

برلن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 جنوری2017ء) جرمن چانسلر میرکل کے ساتھ سیلفی بنانے والے مہاجرکو فیس بک پر مقدمے کا سامنا ہے ،میڈیارپورٹس کے مطابق 2015ء میں شامی مہاجر انس مدمانی کی جرمن چانسلر کے ساتھ سیلفی لیتے ہوئے یہ تصویر بہت مشہور ہوئی تھی۔ مدمانی نے جب یہ تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تو اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کی سیلفی انٹرنیٹ پر وائرل ہو جائے گی۔

میرکل کے ساتھ بنائی گئی اس تصویر کو میڈیا نے بھی جرمنی میں مہاجرین کے بحران سے متعلق کئی خبروں میں شائع کیا لیکن مہاجر دوست اور مہاجر مخالف سوشل میڈیا صارفین بھی اس تصویر کو شیئر کرتے رہے ہیں۔ تاہم اسی تصویر نے مدمانی کے لیے مشکلات بھی پیدا کر رکھی ہیں۔گزشتہ برس برسلز ایئر پورٹ پر خودکش حملہ ہوا جس کے بعد فیس بٴْک پر کئی ایسی جعلی خبریں گردش کرنے لگیں جن میں مدمانی کی اسی تصویر کو پوسٹ کر کے لکھا گیا تھا کہ یہ تصویر برسلز حملہ آور کی ہے جو مہاجر کے روپ میں جرمنی آیا اور اس نے میرکل کے ساتھ سیلفی بھی بنائی تھی۔

(جاری ہے)

فیس بٴْک پر پھیلائی جانے والی ایسی ہی جعلی خبروں سے پریشان مدمانی نے آخر کار فیس بٴْک پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ مدمانی کا کہناتھا کی ایسی جعلی خبروں میں اسے دہشت گرد اور مجرم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔جرمن شہر وٴْرسبٴْرگ کی عدالت نے اب فیس بٴْک یورپ کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے کہا ہے۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جعلی خبروں کے حوالے سے کسی مقدمے میں فیس بٴْک کی انتظامیہ اب پہلی بار کسی جرمن عدالت کا سامنا کرے گی۔

مدمانی کے وکیل چن جو یٴْن نے کہا کہ جب بھی کسی جرم میں کوئی مہاجر ملوث ہو تو سوشل میڈیا پر مدمانی کی تصویر پوسٹ کر کے اسے مجرم ظاہر کیا جاتا ہے۔مدمانی کے وکیل کے مطابق گزشتہ مہینے برلن میں ایک بے گھر شخص کو آگ لگا دینے کا واقعہ پیش آیا تو بھی فیس بٴْک پر اٴْن کے موکل کی تصویر شیئر کر کے لکھا گیا کہ مدمانی بھی ان ملزمان میں شامل تھا۔ اس پوسٹ کو پانچ سو سے زائد افراد نے شیئر کیا۔ لیکن یہ پوسٹ اس لیے نہیں ہٹائی گئی کیوں کہ اس میں فیس بٴْک کے مقرر کردہ معیارات کی خلاف ورزی نہیں کی گئی تھی۔جرمنی میں دائر کیا جانے والا یہ مقدمہ انٹرنیٹ پر نفرت آمیز اور جھوٹی خبریں پھیلانے کے خلاف کی جانے والی کوششوں میں ممکنہ طور پر ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :