سی پیک کو مستقبل میں مقبوضہ کشمیر تک توسیع دی جا سکتی ہے،مسعودخان

صدر آزاد کشمیر کابھارت سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم وتشدد ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند اور افواج نکالنے کا مطالبہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں ، مقبوضہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ نہیں ہے اور نہ وہاں کے معاملات ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ، یہ ایک حل طلب بین الاقوامی تنازعہ ہے ، مقبوضہ کشمیر انسانی حقوق کا قبرستان بن چکاہے اور بھارت کشمیریوںکو دہشتگرد قرار دیکر ان کا حق خودارادیت دبانا چاہتاہے ، بھارتی فوج نے گزشتہ چند ماہ سے کشمیریوں پر ظلم وبربریت کا بازار گرم کررکھاہے ، اقوام متحدہ کشمیر سے متعلق تما م قرار دادوں کو نافذ العمل تسلیم کرچکاہے ،مسئلہ کشمیر کا حل صرف برابری کی سطح پر بات چیت سے ممکن ہے ،پاکستا ن کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی مکمل حمایت کرتاہے دونوں جوہری طاقتیں جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتیں،مذاکرات ہی مسائل کاواحدحل ہیں، کشمیر پر پاکستان کا مقدمہ مکمل طور پر قانونی ہے جو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے ،ستر سال گزرنے کے باوجود مسئلے کو اصل حالت میں زندہ رکھنا وزارت خارجہ اور دفتر خارجہ کی بڑی کامیابی ہے، صدر آزادجموں و کشمیر کا گول میزکانفرنس سے خطاب

ہفتہ 14 جنوری 2017 20:36

سی پیک کو مستقبل میں مقبوضہ کشمیر تک توسیع دی جا سکتی ہے،مسعودخان

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 14 جنوری2017ء) صدر آزادجموں و کشمیر سردارمسعود خان نے بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم وتشدد ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند اور موجود افواج نکالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عالمی برادر ی پر زور دیاہے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی ظلم وتشدد رکوانے کے لئے دبا?ڈالے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنااہم کردار اداکرے ، اقوا م متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹریس اس سلسلے میں سفارتی کردار اداکریں ، مقبوضہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ نہیں ہے اور نہ وہاں کے معاملات ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ، یہ ایک حل طلب بین الاقوامی تنازعہ ہے ، مقبوضہ کشمیر انسانی حقوق کا قبرستان بن چکاہے اور بھارت کشمیریوںکو دہشتگرد قرار دیکر ان کا حق خودارادیت دبانا چاہتاہے ، بھارتی فوج نے گزشتہ چند ماہ سے کشمیریوں پر ظلم وبربریت کا بازار گرم کررکھاہے ، اقوام متحدہ کشمیر سے متعلق تما م قرار دادوں کو نافذ العمل تسلیم کرچکاہے ،مسئلہ کشمیر کا حل صرف برابری کی سطح پر بات چیت سے ممکن ہے ،پاکستا ن کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی مکمل حمایت کرتاہے دونوں جوہری طاقتیں جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتیں،مذاکرات ہی مسائل کاواحدحل ہیں، کشمیر پر پاکستان کا مقدمہ مکمل طور پر قانونی ہے جو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔

(جاری ہے)

ستر سال گزرنے کے باوجود مسئلے کو اصل حالت میں زندہ رکھنا وزارت خارجہ اور دفتر خارجہ کی بڑی کامیابی ہے ، مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنے خون سے تاریخ رقم کر رہے ہیں ،سی پیک کو مستقبل میں مقبوضہ کشمیر تک توسیع دی جا سکتی ہے۔ وہ ہفتہ کو یہاں مقامی ہوٹل میں گول میز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ تقریبا ستر سال گزر نے باوجود یہ مسئلہ نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ اس کی جنوبی ایشیا اور عالمی امن کے لیے کلیدی حیثیت کئی گناہ بڑھ گئی ہے۔

صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ 1947-48میں اگر تاریخ کے دھارے کو فطری طور پر بڑھنے دیا جاتا، تو آج پورا جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ ہوتا۔ لیکن دو وجوہات کی بنا پر ایسا نہ ہو سکا۔ اول ، مہاراجہ کشمیر اور شاہی خاندان کے حکم پر ہندو انتہا پسند وں نے تقریبا اڑھائی لاکھ مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا۔ جموں میں نسل کشی کی یہ بد ترین مثال تھی۔ دوسر ے ، ہندوستانی فوج نے وادی کشمیر ، جموں اور لداخ پر 27 اکتوبر 1947 کو قبضہ کر لیا اور یہ غیر قانونی قبضہ آج تک جاری ہے۔

قتل عام بھی آج تک جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1948 سے لے کر 1957 تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے درجن بھر قرار دادوں میں یہ فیصلہ دیا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اہل جموں و کشمیر کی مرضی سے نکالا جائے گا۔ کشمیری عوام ہی اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ایک جمہوری طریقے سے رائے شماری کے ذریعے یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔

اس طرح اہل جموں و کشمیر کا حق خود ارادیت اصالتا اور قانونا محفوظ ہو گیا۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان سات دہائیوں سے اس حق کے حصول کی راہ میں کھڑا ہے۔ اس نے جبر و طاقت سے کشمیریوں کی آواز کوکچلنے کی کوششیںکی۔ تحریص و ترغیب اور معاشی ترقی کے وعدوں سے ان کے دل جیتنے کی کوششیں کیں۔ ا س نے اپنی حلیف جماعتیں بھی کشمیر میں کھڑی کی ہیں اور دنیا میں کشمیریوں کو بدنام کیا کہ وہ دہشت گرد ہیں، جن کی پشت پناہی پاکستان کر رہا ہے۔

ہندوستان کے چاروں حربے ناکام رہے ہیںاور آج بھی مقبوضہ کشمیر کے پہاڑوں اور وادیوں ، دریاوں ، مرغزاروں اور کھیتوں ، شہر وں، قصبوں اور دیہاتوں سے ایک ہی آواز بلند ہو رہی ہے۔ آزادی۔ اور ایک ہی نعرے کی باز گشت سنائی دے رہی۔ جا? ہندوستان ، واپس جا?۔ چند مفروضات جو صریحا غلط ہیں کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے چھٹے باب کے تحت پاس ہونے والی کشمیر پر قرار دادیں ہر گز کمزور نہیں ہیں۔

وہ مکمل طور پر نافذ العمل ہیں۔ اقوام متحدہ اور فریقین کی ان پر عملدرآمد مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگر چھٹے باب کے تحت کوششوں کے نتیجے میں فریقین میں کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکے تو آرٹیکل 33،36،37 اور ایک عمومی آرٹیکل 25 کے تحت مزید کوششوں اور ساتویں باب کے دروازے کھلے ہیں۔ ایک مرتبہ سیکرٹری جنرل بطرس غالی نے اقوام متحدہ کے محکمہ قانون سے رائے پوچھی کہ چھٹے باب کے تحت قرار دادیں نافذ العمل ہیں۔

جواب تھا، قطعا، یقینا قابل نفاذ۔ اصل المیہ یہ ہے ہندوستان نے پہلے ان قرار دادوں سے مکمل اتفاق کیا اور پھر رو گردانی کی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا یہ الزام غلط ہے کہ پاکستان کی وجہ سے ان قرار دادوں کو عملی جا مہ نہیں پہنایا جا سکا۔ قرار داد اٹھانوے (98) میں کہا تھا کہ پاکستان آزاد کشمیر میں 3000 سے 6000 ، ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں 12000 سے 18000 فو جی رکھ سکتا ہے۔

اس سے اوپر فوج نے دونوں خطوں کو خالی کرنا تھا۔ ہندوستان نے اس پر اتفاق کیا اور مطالبہ کیا کہ پہلے پاکستان فوجیں نکالے ، پھر ہندوستان۔ پاکستان نے کہا ، بیک وقت ، کیونکہ ہندوستان کی نیت درست نہ تھی۔ ہندوستان اپنے وعدے سے مکر گیا۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی اور خود ارادیت کی تحریک ہے اسے کسی صورت دہشت گردی قرار نہیںدیا جاسکتا۔

مقبوضہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ نہیں ہے اور نہ وہاں کے معاملات ہندوستان کا اندرونی مسئلہ۔ یہ ایک حل طلب بین الاقوامی تنازعہ ہے۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر دو طرفہ مسئلہ نہیں ہے اس کی علاقائی اور بین الاقوامی جہت سے مسلمہ ہے۔ مسئلہ کشمیر کے فریقین دو نہیں ، تین ہیں، اور تیسرا فریق اہل جموں و کشمیر ہیں۔ جیسا کہ وزیراعظم نواز شریف نے 05 جنوری کو ایک بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر کہا :۔

کشمیر ی اس مسئلے کے لازم اور مرکزی فریق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ۸ جولائی ۲۰۱۶ سے اب تک ہندوستانی قابض فوج نے مقبوضہ کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی ہے۔سینکڑوں شہید کر دیئے گے۔سینکڑوں کو اندھا کر دیا گیا ہے۔ ہزاروں زخمی ہیں۔ املاک تباہ ، عزت نفس مجروح ، عورتوں کی حرمت غیر محفوظ ، جبری گمشدگیاں عام ، ہزاروں لا پتہ ، آدھی بیوائیں بے حال ، کئی گمنام اجتماعی قبریں۔ یہ ہے کشمیر کی دلخراش تصویر۔ کشمیر فی لواقع ایک قتل گاہ ہے اور حقوق انسانی کا قبرستا ن ہے۔ جو کچھ وہاں ہو رہا ہے وہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ صرف او ر صرف نسل کشی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں بند کرے