حکومت کی کوشش ہے کتاب، شاعری اور ادب کو زندہ رکھیں اور لٹریچر کو عام کریں

کسمپرسی کی زندگی گزار نے والے شعراء اور ادیبوں کا وظیفہ 3ہزار روپے سے بڑھاکر 13ہزار کر دیا ،یہ صرف 500 لوگوں کو ملتا تھا اب 1000کو دیا جارہا ہے فنکاروں کی فلاح و بہبود کیلئے وزیراعظم کی ہدایات پر اقدامات کر رہے ہیں،عرفان صدیقی

ہفتہ 14 جنوری 2017 21:05

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 جنوری2017ء) وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ و ثقافتی و ادبی ورثہ عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ کتاب، شاعری اور ادب کو زندہ رکھیں اور لٹریچر کو عام کریں۔ فنکاروں کی فلاح و بہبود کیلئے بھی وزیراعظم محمد نواز شریف کی ہدایات پر موثر اقدامات کر رہے ہیں، پاکستان میںحال ہی میں ہونے والی چارروزہ ادبی کانفرنس میں ہمارے دوست ممالک سمیت دنیا بھر سے نامور شخصیات ،ادیبوں اور شعراء نے شرکت کی جبکہ اندرون ملک سے بھی لکھنے والی چار پانچ سو نامور شخصیات کانفرنس میں شریک ہوئیں جس میں ادب کی مختلف اصناف پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کو پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام ’’پیشرفت‘‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس بین الاقوامی کانفرنس میں 360 مقالات پیش کئے گئے، اہل قلم کی بہبود اور ادبی سرگرمیوں کے فروغ کیلئی50کروڑ روپے بھی مختص کیے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم کتاب کو زندہ رکھنے کیلئے کوشاں ہیں اور یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کتابیں سستے داموں میسر ہوں تاکہ لوگ بآسانی کتابوں کو حاصل کر سکیں، وزیراعظم نے بھی بڑی خوبصورت بات کہی تھی کہ ادب اور شاعری کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، کوئی جغرافیہ نہیں ہوتا، یہ سب انسانیت کی زبان بولنے والے اور انسانیت کا درد رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ادب اور شاعری کسی بھی ملک کی ہو اس میں نفرتیں نہیں ہوتیں بلکہ اس میں درد ہوتا ہے، ہمدردی ہوتی ہے، جذبہ و احساس کا اشتراک ہوتا ہے۔خیر سگالی ہوتی ہے اور فاصلوں کے کم کرنے کی بات ہوتی ہے اور یہی چیزیں اس ادبی و بین الاقوامی کانفرنس میں بھی شیئر کی گئیں۔ موجودہ حالات جن میں انتہا پسندی ہے، نفرتوں کی دیواریں ہیں، کہیں علاقیت ہے تو کہیں فرقہ واریت ہے، عدم برداشت و تحمل کے رویے بھی ہیں جن میں یہ موضع نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے، ہم اسے ایک مستقل مشق بنانے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس ادبی کانفرنس میں جو مقالات پیش کئے گئے وہ ہمارا سرمایہ ہیں، ہماری کوشش ہے کہ شعرو ادب کے شعبے کو پھر سے متحرک کیا جائے اور حکومت ان کی تخلیقات اور ان کے مفاہین اور ان کے نفس مضامین پر کوئی فرق ڈالے بغیر انسانیت کے فروغ و ہمدردی کے اس فن کا سبب بنے، ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ ہم نے قیادت سے محروم اداروں کی محرومی دور کرتے ہوئے ان اداروں کو باقاعدہ ایک قیادت دی اور اہل فن لوگوں کو ڈھونڈ کر انہیں ایک منصب پر فائز کیا جبکہ اس کے علاوہ میں بذات خود بھی ان اداروں کی مشکلات کو دیکھ رہا ہوں، یہاں موجود فنڈز کی کمی کا جائزہ لے رہا ہوں اور پھر حاصل وسائل کے اندر ان کے اہداف کا تعین بھی کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ کتاب، شاعری اور ادب کا زندہ رکھیں اور لٹریچر کو عام کریں کیونکہ عمومی زندگی میں بھی جو شخص شعروادب کے قریب ہے اس کی زندگی مختلف ہے، اسکی زبان بھی مختلف ہوگی اور وہ کسی بھی شعبے میں ہو وہ مختلف نظر آئے گا، 2017ء کے سال کو ہم ضرب قلم کے طور پر منا رہے ہیں اور یہ سال ضرب قلم کا ہوگا۔ ایک اور سوال کے جواب میں عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ہمارے ایسے شعراء یا ادیب جو کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ان کیلئے ہم نے باقاعدہ اہتمام کیا ہے اور اکادمی ادبیات کی ہی ایک اسکیم کے تحت ان لوگوں کو وظیفہ دیا جا رہا ہے، پہلے یہ وظیفہ صرف 3ہزار روپے مہینہ تھا پھر اسے 5ہزار روپے کیا گیا لیکن اب میں نے وزیراعظم محمد نواز شریف سے کہہ کر اسے 13ہزار کر دیا ہے اور اب انہیں 13ہزار ہی مل رہا ہے اور پہلے یہ صرف 500 لوگوں کو ملتا تھا جس کی تعداد کو بھی ہم نے بڑھا کر 1000کر دیا ہے جبکہ اسی طرح کے اور بھی اہم اور موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک میں فنکاروں کی فلاح و بہبود کیلئے بھی وزیراعظم محمد نواز شریف کی ہدایات پر عملدرآمد کرتے ہوئے اہم اور موثر اقدامات کر رہے ہیں اور ایک جامع اسکیم بنا رہے ہیں جو عمر کے خاص حصے میں ان فنکاروں کو اذیت سے بچانے کے لیے کارگر ثابت ہوگی اور یہ فنکار کسی کے مختاج نہیں رہیں گے۔

متعلقہ عنوان :