ایف آئی سے پوچھا جائے بینظیر قتل کا مقدمہ کتنے عرصے میں مکمل ہوگا ،سینیٹ ہیومن رائٹس کمیٹی کی این سی ایچ آر کو ہدایت

کمیٹی کی ملتان کے انسانی حقوق کے کارکن ایڈووکیٹ راشد رحمن کو سب سے بڑا سول اعزاز دینے کی سفارش، انسانی حقوق کی وزارت اس سلسلے میں حکومت کیلئے سمری تیار کرنے کی ہدایت

پیر 16 جنوری 2017 20:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 جنوری2017ء) سینیٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی نے نیشنل کمیشن آن ہیو من رائٹس(NCHR) کو ہدایت کہ وہ ایف آئی سے پوچھے کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ کتنے عرصے میں مکمل ہوگا یہ ہدایت سینیٹر ڈاکٹر بابر اعوان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مسئلے کو اٹھانے کے بعد کی گئی۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ نہ صرف بھٹو فیملی بلکہ پوری قوم اس فیصلے کے مکمل نہ ہونے پر فکرمند ہے کیونکہ کبھی ججوں کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے، ایک پراسیکیوٹر قتل بھی ہو چکا ہے اور پراسیکیوٹر بار بار تبدیل کئے جاتے رہے ہیں۔

کمیٹی نے ملتان کے انسانی حقوق کے کارکن ایڈووکیٹ راشد رحمن کو سب سے بڑا سول اعزاز دینے کی سفارش کی اور ہدایت کی کہ انسانی حقوق کی وزارت اس سلسلے میں حکومت کے لئے ایک سمری تیار کرے۔

(جاری ہے)

یہ معاملہ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اٹھایا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ راشد رحمن کے قاتلوں کے خلاف اب تک مقدموں میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو پکڑنے کے لئے کوششیں تیز کی جائیں جو کہ رپورٹوں کے مطابق ملک سے بھاگ چکے ہیں اور راشد رحمن کو ان کے انسانی حقوق پر کام کے لئے سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا جائے۔

راشد رحمن کو انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا۔ پنجاب پولیس نے کمیٹی کو مطلع کیا کہ راشد رحمن کے قاتلوں میں سے ایک کو کچھ عرصہ قبل پولیس مقابلے میں مار دیا گیا ہے جبکہ دیگر دو قاتل ملک سے بھاگ گئے ہیں اور انہیں پکڑ واپس لانے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ راشد رحمن کے خاندان اور ان کے قتل کے گواہوں اور مدعی کی حفاظت جامع طور پر ایک سکیورٹی پلان کے تحت کی جا رہی ہے۔

کمیٹی نے مالاکنڈ کے ایک انٹرنمنٹ سنٹر سے 28لوگوں کے غائب ہو جانے پر بھی گفتگو کی اور فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں کے پی کے کے وزیر داخلہ اور کے پی کے کے جیل خانہ جات کے آئی جی کو بلایا جائے۔ مالاکنڈ انٹرنمنٹ سنٹر کے انچارج نے کمیٹی کو بتایا کہ 35انٹرنیز میں سے سات کو فوجی حکام نے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا جبکہ 28 کے متعلق جیل حکام کو نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ معاملہ این سی ایچ آر کو تحقیقات کے لئے بھیج دیا جائے کہ ان 28انٹرنیز کا کیا ہوا انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے خود ہی ایک ایف آئی آر داخل کرائی تھی جس میں کچھ ذمہ داروں کو نامزد کیا تھا۔

این سی ایچ آر کو چاہیے وہ اس ایف آئی آر پر پیشرفت کی تحقیقات کرکے کمیٹی کو رپورٹ پیش کریں۔ کمیٹی نے پرائیویٹ ممبر بل "خواجہ سرائوں کے تحفظ اور حقوق کابل 2017 " جو سینیٹر ڈاکٹر بابر اعوان نے پیش کیا تھا اور سینیٹ کے چیئرمین نے انسانی حقوق کی کمیٹی کو بھجوایا تھا پر غوروخوض موخر کر دیا ہے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ خواجہ سرائوں کے نمائندوں کو بھی بلا کر ان کی رائے لی جائے اور مجوزہ قانون سازی میں شامل کیا جائے۔

وزارت قانون نے کمیٹی کو بتایا کہ اس سلسلے میں ایک بل پہلے ہی زیر غور ہے اور تجویز دی کہ دونوں بلوں کو اکٹھا کر دیا جائے۔ میٹنگ کی صدارت سینیٹر محسن لغاری نے کی جبکہ سینیٹر بابر اعوان، نثار خان، ستارہ ایاز، ثمینہ عابد، میرکبیر شاہی، سینیٹر سحر کامران اور فرحت اللہ بابر نے اجلاس میں شرکت کی۔طارق

متعلقہ عنوان :