بلوچستان اسمبلی میں سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان کے خلاف تحریک استحقاق منظور

موجودہ چیف سیکرٹری بلوچستان اور بیوروکریسی کے متعدد افسران کرپٹ ہیں، ایوان کا استحقاق مجروح کرتے ہیں ، ارکان اسمبلی حالیہ برفباری اور بارشوں میں حکومتی اداروں کا کردار غیر تسلی بخش رہا، آدھا بلوچستان اندھیرے میں اور گیس کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا ہے، گوادر میں لوگ پینے کے پانی کیلئے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، پوائنٹ آف آرڈ پر ارکان اسمبلی کا اظہار خیال

پیر 16 جنوری 2017 21:09

?کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جنوری2017ء) بلوچستان صوبائی اسمبلی میں سابقہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان نصیب اللہ بازئی کے ارکان اسمبلی اور صوبائی وزراء کے خلاف بیانات پر دو تحاریک استحقاق پیش اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے معاملہ استحقاق کمیٹی کے سپر د کردیا ارکان اسمبلی کا صوبے میں بارش اور برفبار ی کے بعد شاہراہوں ، سوئی گیس ، بجلی کی بندش پر شدید احتجاج وفاقی اداروں پر تنقید اپوزیشن رکن زمرک خان اچکزئی کی نشاندہی پر کورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس ملتوی کردیا گیا ۔

تفصیلات کے مطابق بلوچستان اسمبلی کا اجلاس پیر کے روز اسپیکر پینل کی ممبر یاسمین لہڑی کی زیر صدارت آدھے گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا اجلاس میں ڈاکٹر حامد اچکزئی نے تحریک استحقاق نمبر 6پیش کرتے ہوئے کہاکہ سابقہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان نصیب اللہ بازئی نے 7جنوری کو اخبارات میں بیان دیا کہ میںنے انہیں سیاسی انتقام اور سیاسی مقاصد کے لئے کام نہ کرنے کی بنیاد پر انہیں عہدے سے ہٹوایا ہے جس سے مجھ سمیت دیگر ارکان کا استحقاق مجروح ہوا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ نصیب اللہ بازئی کی وجہ سے پی اینڈ ڈی دس دن تک بند رہا موصوف نے گھر میں کیمپ آفس قائم کر رکھا تھا جہاں وہ محکمے کے تمام معاملات دیکھ رہے تھے اور لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے ان سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی اور انہیں فون بھی کیا لیکن انہوںنے کوئی جواب نہیں دیا ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہاکہ وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کے علاوہ کوئی کیمپ آفس نہیں بنا سکتا لیکن موصوف نے ایسا کر کے دکھایا ہے ۔

انہوںنے کہاکہ میں خالد لانگو نہیں بننا چاہتا خالد لانگو بھی میری طرح معصوم ہیں لیکن انہیں بھی ایسے ہی ایک آفیسر کی وجہ سے شدیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لہذا مذکورہ شخص کے خلاف استحقاق کمیٹی تحقیقات کرے، تحریک پر بات کرتے ہوئے رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہاکہ وہ ڈاکٹر حامد کی قرارداد کی مکمل حمایت کرتے ہیں اتنی اسکیمات تو ایک منتخب نمائندہ نہیں کرتا جتنی سابقہ اے سی ایس نے کی ہیں جب نصیب اللہ بازئی اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ تھے انہوںنے اس دور میں بھی بسم اللہ کاکڑ کو بلا جواز تشدد کا نشانہ بنایا اور انہوںنے تھانے میں بند کردیا اسی طرح موجودہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری عمر بابر کے ساتھ بھی انہوںنے کچھ دن پہلے جھگڑا کیا لیکن اس لڑائی کو دبا دیا گیا اور اس کی تحقیقات نہیں ہوئیں ۔

انہوںنے کہاکہ ایسی کونسی سیڑھی ہے جسے چڑھ کر نصیب اللہ بازئی اے سی ایس بن گئے اگر ایک بیوروکریٹ نے اسمبلی ممبران کو بلیک میل کرنا ہے تو انہیں ہی ایوان میں لاکر بیٹھا دیں منتخب عوامی نمائندوں پر کسی صورت کیچڑ اچھالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔انہوںنے کہاکہ کمانڈر سدرن کمانڈ کا اسمبلی میںکوئی کردار نہیں ہے لیکن انہیں بھی نصیب اللہ بازئی نے بیچ میں دھکیل کر بدنام کرنے کی کوشش کی ہے ۔

انہوںنے بیان دیکر سرکاری ملازمت کی اصولوں کو توڑا ہے جس پر انہیں معطل کرکے سزا دی جائے اور تحقیقات کے بعد وہ بے قصور ہو ں تو بے شک انہیں چیف سیکرٹری بنادیا جائے ۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی مجید خان اچکزئی نے کہاکہ موجودہ چیف سیکرٹری رینٹل پاور کیس میں ضمانت پر ہیں سرکاری آفیسران چیف سیکرٹریوں کی کرپشن میں خدمت کر تے ہیں نیب حکام اس بات کی تحقیق کریں کہ سابقہ اے سی ایس نے کینٹ میں کئی بنگلے کیسے خریدے ہیں ان کی اتنی جائیدادیں کہاں آگئیں کیا نیب کو معلوم نہیں کہ زاہد سلیم اور نور احمد سمو کیا کام کرتے ہیں ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے بیان دیا کہ انہیں تین فیصد کمیشن کے لئے عہدے سے ہٹایا گیا ہے لیکن جب منسٹر بلا تے تھے تو وہ تو آتے نہیں تھے پھر یہ بات چیت کب ہوئی نیب کو سب معلوم ہے کہ کس نے کتنی کرپشن کی ہے ۔

ایک کرپٹ سیکرٹری منتخب نمائندوں کے خلاف بیان دیتا ہے اور اس سے بھی بڑا مذا ق یہ ہے کہ چیف سیکرٹری سیف اللہ چٹھہ جو کرپشن کیس میں ضمانت پر ہے وہ بلوچستان کا چیف سیکرٹری ہے ۔انہوںنے کہاکہ اگر پی اینڈ ڈی کی جانب سے سمری موصول ہوتی ہے تو نیب حکام کو بحیثیت پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین طلب کرکے سابقہ اے سی ایس کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کا کیس حوالے کرونگا ۔

جس کے بعد اسپیکر پینل کی ممبر یاسمین لہڑی نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے بیانات کا معاملہ استحقاق کمیٹی کے سپرد کردیااور رولنگ دی کہ استحقاق کمیٹی ایک ماہ میں معاملے کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی سید آغا لیاقت نے ایوان میں تحریک استحقاق نمبر 7پیش کرتے ہوئے کہاکہ سابقہ اے سی ایس نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو خط لکھا ہے کہ میں اور صوبائی وزیر سردار مصطفی خان ترین نے سابقہ اے سی ایس پر مختلف اسکیمات میں ردوبدل کے لئے ان پر دباؤ ڈالا اور اب انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔

انہوںنے 7جنوری کو بیان جاری کیا اور ٹھیکیداروں کے ذریعے اشتہار دلواکر ہمارا استحقا ق مجروح کیا ہے جبکہ چیف سیکرٹری نے انہیں سیکرٹری ایریگیشن یا پی ایچ ای لگانے کی سفارش کر دی ہے نصیب اللہ بازئی نے میرے اور سردار مصطفی خان ترین کے خلاف الزامات لگائے ہیں۔اور کور کمانڈر کو بھی معاملے میں ملوث کر لیا ہے اور کہاہے کہ کور کمانڈر نے بجٹ کی تشکیل میں انہیں ہدایات دیں جبکہ ہم ایوان میں واضح کر چکے ہیںکہ حکومت اپنا بجٹ خود بناتی ہے موصوف بلاوجہ کمانڈر سدرن کمانڈ کو بھی معاملے میں ملوث کر رہے ہیں ۔

انہوںنے کہاکہ جب نصیب اللہ بازئی کانام چیف سیکرٹری کے پاس تعیناتی کیلئے گیا تھا تو ہم نے انہیں آگاہ کیا تھا کہ نصیب اللہ بازئی انہتائی کرپٹ آفیسر ہے انہیں تعینات نہ کیاجائے جس پر چیف سیکرٹری نے کہاکہ تھا معاملہ وزیر اعلیٰ کے پاس لیکر جائیں گے ۔لیکن اب چیف سیکرٹری خود سابقہ اے سی ایس کو مختلف محکموں میں تعینات کرنے کیلئے ریمارکس دے رہے ہیں۔

جوکہ غیر قانونی ہے ایوان اس کی تحقیقات کرے جس پر اسپیکر محترمہ راحیلہ حمید خان درانی نے رولنگ دی کہ کسی کو ارکان اسمبلی کا استحقاق مجروح نہیں کرنے دیا جائے گا۔لہذا اس اسمبلی کے قاعدہ نمبر ساٹھ کے تحت معاملہ استحقاق کمیٹی کے سپر د کیا جاتا ہے اور کمیٹی دونوں جانب کی موقف سن کر جلد ازجلد رپورٹ پیش کرے پوائنٹ آف آرڈ پر بات کرتے ہوئے رکن صوبائی اسمبلی میر حمل کلمتی نے کہاکہ ان کے حلقہ گوادر جس کے بغیر سی پیک منصوبہ کچھ نہیں ہے وہاں لوگ پینے کے پانی کی بوندھ بوندھ کو ترس رہے ہیں گوادر کے لوگ پانی کی بھیک مانگ رہے ہیں جبکہ انہیں میر انی ڈیم سے پانی فراہم کیاجارہاہے لیکن وہ پانی کبھی آئل ٹینکر تو کبھی ڈیزل کے ٹینکر میں دیا جاتاہے ایسے 46ارب ڈالر کے منصوبے کا کیافائدہ جس میں گوادر کے لئے پانی کا ایک بھی منصوبہ شامل نہیں ہے بلوچستان سونے کی چڑیا ہے جس کا دل کرتا ہے آکر لوٹ کر چلا جاتاہے ۔

جبکہ وفاقی حکومت گوادر میں ڈی سیلنائزئیشن پلانٹ جلد ازجلد لگائیں صوبائی وزیرپی اینڈڈی ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہاکہ گوادر میں ڈی سلیانزئیشن پلانٹ اور میرانی ڈیم سے روزانہ تین لاکھ گیلن پانی فراہم کیا جا رہاہے جبکہ تین ڈیم ابھی بھی زیر تعمیر ہیں جن کے مکمل ہونے کے بعد شہر میں پانی کی ضرورت پوری ہوجائے گی ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ صوبے میں کئی سالوں کے بعد ریکارڈ برفباری اور بارش ہو رہی ہے ۔

لیکن اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کیلئے حکومت کے اقدامات ناکافی ہے بلوچستان کی عوام شاہرائیں ، گیس اور بجلی بند ہونے کے سبب انتہائی مشکل کا شکار ہے کان میترزئی کا راستہ اب بھی بند ہے لوگوں کے پاس کھانے پینے کے اشیاء موجود نہیں ہے جبکہ اداروں کے آن گراؤنڈ اقدامات نظر نہیں آر ہے ہیںحکومت اداروں سے رپورٹ طلب کرکے سسٹم کو بحال کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے ۔

پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے نے کہاکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ،پی ڈی ایم اے ، کیسکو ، اور سوئی گیس تمام وفاقی ادارے ہیں جنہوںنے حالیہ برفباری کے بعد اپنا کردار ادا نہیں کیا اور یہ ادارے غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں تمام اداروں کے سربراہان کو بلا کر وضاحت طلب کیا جائے کہ ایسا کیوں ہوا ہے کہ بلوچستان کی تمام شاہرائیں بلاک ہیں صوبے میں گیس اور بجلی نہیں ہیں۔

اب بھی ادھا کوئٹہ شہر گیس اور بجلی سے محروم ہے اور عوام عذاب میں مبتلا ہے پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین رکن صوبائی مجید خان اچکزئی نے کہاکہ این ایچ اے ، ایف ڈبلیو او کے پاس سالانہ 50لاکھ روپے صرف نمک کی خریداری کے لئے موجود ہوتے ہیں جو برفباری کی صورت میں شاہراہوں سے برف ہٹانے میں کام آتا ہے صوبے میں ایک ہفتہ پہلے سے برفباری کی پیشن گوئی تھی تو اس کے لئے پہلے سے اقدامات کیوں نہیں کئے گئے میں خود گیارہ گھنٹے تک شاہراہ پر پھنسا رہا جبکہ ایکسین پشین فیملی کے ہمراہ پکنک منا رہے تھے کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا وزیر کوئٹہ میں موجود نہیں تھا بڑی بڑی منسٹریاں اور بڑے بڑے فنڈز کیا کر رہے ہیں اور کہاں استعمال ہو رہے ہیں ان سے تحقیقات ہونی چاہئے جبکہ مختلف علاقوںمیں محصور ہونے والے شہریوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے راشن فراہم کیا جائے ، رکن صوبائی اسمبلی یاسمین لہڑی نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہاکہ حکومتی رکن ہونے کے باوجود ہم حکومت کے اداروں پر تنقید کرنے پر مجبو رہوچکے ہیں اداروں سے ایک برفباری نہیں سنبھالی گئی ہم عوام کے خدمتگار اور ان کو جوابدہ ہیںلیکن جب تک اداروں کو مکمل طورپر فعال اور موثر نہیں بنایا جاتا معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے ۔

اجلاس کی کارروائی نماز کے وقفہ کے بعد شروع ہوئی تو اپوزیشن رکن انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کورم کی نشاندہی کی جس پر ایوان میں دس منٹ سے زائد وقت تک گھنٹیاں بجائی گئیں تاہم کورم پورانہ ہونے کی وجہ سے اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید خان درانی نے اجلاس کی اگلی تاریخ تک ملتوی کردیا جبکہ سرکاری کارروبائی بھی نہیں نمٹائی جاسکی ۔