وزیر اعظم نے آئین کے آرٹیکل248کے تحت استثنیٰ نہیں مانگا ،ْ مخدوم علی خان

مخدوم علی خان آپ اصل ایشو پر فوکس کریں ،ْپارلیمنٹ میں تقریر کی بنیاد پر وزیراعظم کو پراسیکیوٹ نہیں کررہے ،ْآپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں ،ْ سپریم کورٹ ظہور الٰہی کیس میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی استثنیٰ مانگا تھا ،ْ وکیل وزیر اعظم ظہور الٰہی کیس میں وزیراعظم نے تقریر اسمبلی میں نہیں کی تھی ،ْ آپ کے ظہور الٰہی کیس کا حوالہ دینے سے متفق نہیں ،ْجسٹس آصف سعید کھوسہ بھارت میں ججز کو ہٹانے کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے قرارداد کی منظوری ضروری ہے ،ْمخدوم علی خان پارلیمنٹ کو ججز کے ہٹانے کا اختیار دینا غیر محفوظ ہو گا ،ْ بھارت میں بحث جاری ہے کہ ججز کے احتساب کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل بنائی جائے ،ْ جسٹس آصف سعید کھوسہ

منگل 17 جنوری 2017 14:27

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 جنوری2017ء) سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے معاملے پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے آئین کے آرٹیکل248کے تحت استثنیٰ نہیں مانگا جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ مخدوم علی خان آپ اصل ایشو پر فوکس کریں ،ْپارلیمنٹ میں تقریر کی بنیاد پر وزیراعظم کو پراسیکیوٹ نہیں کررہے ،ْکیس اظہار رائے کی آزادی کا نہیںجو آئین دیتا ہے ،ْآپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔

منگل کو پاناما پیپرز لیکس کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے دسویںسماعت میں وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے موقف پیش کیا کہ وزیر اعظم نے آئین کے آرٹیکل248کے تحت استثنیٰ نہیں مانگا ،ْعمران خان کے وکیل نے وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر کو بنیاد بنایا۔

(جاری ہے)

جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ مخدوم علی خان آپ اصل ایشو پر فوکس کریں، پارلیمنٹ میں تقریر کی بنیاد پر وزیراعظم کو پراسیکیوٹ نہیں کررہے۔

مخدوم علی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت وزیر اعظم کو امور مملکت چلانے پر استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ آپ کا کیس اظہار رائے کی آزادی کا نہیں ،ْجو آئین دیتا ہے ،ْآپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں مختلف مقدمات کے حوالے بھی پیش کئے۔ چوہدری ظہور الٰہی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی استثنیٰ مانگا تھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ظہور الٰہی کیس میں وزیراعظم نے تقریر اسمبلی میں نہیں کی تھی ،ْ آپ کے ظہور الٰہی کیس کا حوالہ دینے سے متفق نہیں۔مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 19 کے تحت ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کا حق دیتا ہے ،ْ آپ کا کیس آرٹیکل 19 کے زمرے میں نہیں آتا ،ْ اپنے دلائل کو اپنے کیس تک محدود رکھیں ،ْآپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔

مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ بھارت میں سپریم جوڈیشل کونسل نہیں ہوتی ،ْوہاں ججز کو ہٹانے کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے قرارداد کی منظوری ضروری ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کو ججز کے ہٹانے کا اختیار دینا غیر محفوظ ہو گا ،ْ بھارت میں بحث جاری ہے کہ ججز کے احتساب کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل بنائی جائے۔سماعت کے آغاز پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مخدوم علی خان سے کہا کہ گزشتہ روز آپ نے پارلیمانی کارروائی عدالت میں چیلنج نہ کرنے کے اختیار کا ذکر کیا تھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نیوزی لینڈ کے ارکان اسمبلی نے پارلیمنٹ کے فلور پر تقریر اور میڈیا پر کہا کہ اپنی بات پر قائم ہیں اورعدالت نے قرار دیا کہ پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر ارکان کے خلاف بطور ثبوت استعمال کی جا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ برطانوی عدالت بھی ایک فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ کرپشن کو پارلیمانی استثنیٰ حاصل نہیںآئین کے آرٹیکل 68 کے تحت ججز کا کنڈکٹ بھی پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں آتا۔مخدوم علی خان نے کہا کہ اسمبلی میں ججز کے کنڈکٹ پر بات ہو تو پارلیمانی استثنیٰ حاصل نہیں ہو گا، مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 68 اور204 ججز کنڈکٹ پر بات کرنے سے روکتے ہیں۔