عالمی بنک پاکستان اور بھارت مابین پانی کے تنازع کے حل کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرے،سینیٹ کی پورے ایوان کی کمیٹی کا متفقہ قردادمیں مطالبہ

معاہدے کے تحت کسی ایک فریق کو تنازعے کے حل کیلئے مناسب فورم پر جانے سے نہیں روکا جا سکتا ،عالمی بنک کی جانب سے معاملہ پر لیا گیا مو قف پاکستان کو مسئلہ کے حل کیلئے متعلقہ فورم سے روکنے کے مترادف ہے، قرارداد میں اظہار تشویش پاکستان کو بھارت کے واٹر بم سے کوئی خطرہ نہیں ،بھارت مغربی دریائوں کے پاکستان کے پانی پر ڈاکہ نہیں ڈال سکتا، پاکستان ہو اپنا گھر درست رکھنے کی ضرورت ہے، پاکستان کے اگر اندرونی حالات درست ہوں تو سندھ طاس معاہدہ کے ہونے یا نہ ہونے سے پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کی کمیٹی کو بریفنگ عالمی بنک نے سندھ طاس معاہدے کے مفاد میں دو طرفہ بات چیت کے زریعے مسئلہ کے حل کی تجویز دی ہے، بھارت ممبر نامزدنہ بھی کرے تو ثالثی کی عدالت فعال رہے گی ، سرتاج عزیز

منگل 17 جنوری 2017 20:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 جنوری2017ء) سینیٹ کی پورے ایوان کی کمیٹی نے عالمی بنک سے متفقہ قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازعہ کے حل کے حوالے سے سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داری پوری کرے،قراداد کے میں کہاگیا ہے کہ معاہدے کے تحت کسی ایک فریق کو تنازعے کے حل کے لئے مناسب فورم پر جانے سے نہیں روکا جا سکتا ،تاہم عالمی بنک کی جانب سے معاملہ پر لیا گیا مو قف پاکستان کو مسئلہ کے حل کے لئے متعلقہ فورم سے روکنے کے مترادف ہے،وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہاہے کہ پاکستان کو بھارت کے واٹر بم سے کوئی خطرہ نہیں ،بھارت مغربی دریائوں کے پاکستان کے پانی پر ڈاکہ نہیں ڈال سکتا، پاکستان ہو اپنا گھر درست رکھنے کی ضرورت ہے، پاکستان کے اگر اندرونی حالات درست ہوں تو سندھ طاس معاہدہ کے ہونے یا نہ ہونے سے پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے یہ بیان دے کر کہ وہ مشرقی دریائوں کا ایک گھونٹ بھی پانی کسی کو نہیں پینے دیں گے اپنی عوام کو بے وقوف بنایا، سندھ طاس معاہدے کے تحت مشرقی دریائوں کا پانی بھارت کو دیا گیا ہے اور یہ پانی پاکستان استعمال نہیں کر رہا، پاکستان نے بگلیہار ڈیم کے تنازعہ پر 2005میں اس کے ڈیزائن پر اعتراض کیا جبکہ اس منصوبے پر کام 1994میں شروع ہوا تھا اور تاخیر کی وجہ سے پاکستان یہ کیس ہارگیا، کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر ثالثی کی عدالت نے پاکستان کا اعتراض مسترد کیاگیا کیوں کہ پاکستان نے نیلم جہلم منصوبے پر بعد میں کا م شروع کیا، بھارت کو پانی ذخیرہ کرنے سے منع کیا گیا جس کی وجہ سے پانی کے بہائو میں کمی نہیں آئی ،رتلے ڈیم پر ابھی کام شروع نہیں ہوا ،سندھ طاس معاہدے کے تحت کمشنر کی سطح پر اور حکومتی سطح پر مذاکرات ناکام ہونے پر پاکستان نے ثالثی کیلئے اپلائی کیاہے، ،عالمی بنک کی جانب سے ثالثی کے عمل میں وقفے کو پاکستان نے قبول نہیں کیا،پاکستان سندھ طاس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل چاہتا ہے، بھارت نے دریائے جہلم پر تین،چناب پر دو پانی کے بہائو پر بجلی کے منصوبے لگائے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی جانب پانی کے بہائو میں کوئی فرق نہیں آیا،۔

(جاری ہے)

بھارت ا فغانستا ن کو استعمال کرکے دریائے کابلپر پاکستان کے لئے مسائل بنا نا چاہتا ہے،کابل کا پانی پاکستان کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے،پاکستان میں جب پانی کی کمی ہوتی ہے اس وقت دریائے کابل سے پاکستان کو پانی حاصل ہوتاہے،مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کی بات نہیں کرنی چاہیے البتہ 1960کے بعد دریائوں کے زیریں علاقو ں کے حقو ق کے تحفظ کے لئے بین الا قوامی کنونشن کے تحت ترمیم کی جاسکتی ہے ۔

چئیرمین کمیٹی نے اس حوالے سے وزارت پانی و بجلی اور وزارت خارجہ کو جائزہ لے کے جواب دینے کی ہدایت کر دی ۔منگل کو سینیٹ کے پورے ایوان کی کمیٹی کا اجلاس میاں رضا ربانی کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازعہ کے حل کے لئے ثالثی کی عدالت کے قیام کے حوالے سے تازہ ترین پیش رفت پر بریفنگ دی گئی ۔

اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت نے مغربی دریائوں سی7لاکھ میں سے ڈیڑھ لاکھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذراعت کے لئے استعمال کیا ہے جبکہ 3.8ملین ایکڑ فٹ میں سے 0.08ملین ایکڑ فٹ پانی سٹور کیا ہے۔پاکستان کو بھارت کے واٹر بم سے کو،ْی خطرہ نہیں،پاکستان نے بگلیہار ڈیم کے تنازعہ پر 2005میں اس کے ڈیزائن پر اعتراض کیا جبکہ اس منصوبے پر کام 1994میں شروع ہوا تھا اور تاخیر کی وجہ سے پاکستان یہ کیس ہارگیا،کشن گنگاڈیم کی تعمیر روکنے کیلئے پاکستان نے کیس کیا تھا لیکن کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر پاکستان کا اعتراض مسترد کیاگیا کیوں کہ پاکستان نے نیلم جہلم منصوبے پر بعد میں کا م شروع کیا۔

بھارت کو پانی ذخیرہ کرنے سے منع کیا گیا جس کی وجہ سے پانی کے بہائو میں کمی نہیں آئی ،رتلے ڈیم پر ابھی کام شروع نہیں ہوا اور یہ منصوبہ بھارت نے پرائیویٹ شعبے کو آئی پیزپیز طریقہ کارکے تحت دیا ہے،اس پر پاکستان نے اعتراض کیا ہے،سندھ طاس معاہدے کے تحت کمشنر کی سطح پر اور حکومتی سطح پر مذاکرات ناکام ہونے پر پاکستان نے ثالثی کیلئے اپلائی کیا۔

12دسمبر کو ثالثی کے عمل کیلئے پاکستان نے کام کاآغاز کیا لیکن عالمی بنک نے تجویز دی ہے پاکستان اور بھارت اس معاملے کر مذاکرات کے ذریعے حل کریں اور ثالثی کے عمل میں جنوری کے آ خر تک وقفہ تجویز کیا ہے ،عالمی بنک کی جانب سے ثالثی کے عمل میں وقفے کو پاکستان نے قبول نہیں کیا،پاکستان سندھ طاس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل چاہتا ہے،پاکستان معاہدے پر عمل کرے گااور معاہدے سے انحراف نہیں کرے گا، بھارت ثالثی کی عدالت کے بجائے نیوٹرل ایکسپرٹ کے ذر یعے مسئلہ کے حل کا خواہاں ہے ۔

عالمی بنک نے پاکستان کے موقف سے اتفاق کیا ہے لیکن وہ بھارت کو قائل کرنا چاہتے ہیں کہ باہمی بات چیت سے مسئلے کا حل نکالیں۔مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے کہاہے کہ عالمی بنک چاہتا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کو کوئی نقصان نہ ہو اس لئے دو طرفہ بات چیت کے زریعے مسئلہ کے حل کی تجویز دی ہے۔ہمارا موقف یہ ہے اگر بھارت ثالثی کی عدالت کیلئے ممبر نامزدنہ بھی کرے تو عدالت فعال رہے گی جبکہ بھارت دوسرا مو قف رکھتا ہے۔

وزیرپانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہاکہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے یہ بیان دے کر کہ وہ مشرقی دریائوں کا ایک گھونٹ بھی پانی کسی کو نہیں پینے دیں گے اپنی عوام کو بے وقوف بنایا،پاکستان پہلے سے ہی مشرقی دریائوں کا پانی استعمال نہیں کر رہا،پاکستان کے اگر اندرونی حالات درست ہوں تو سندھ طاس معاہدہ کے ہونے یا نہ ہونے سے پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،پاکستان میں بہت زیادہ پانی ضائع کیا جارہا ہے اور پانی کا استعمال صیح نہیں کیا جا رہا ہے ۔

پاکستان 73فیصد پانی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور باقی سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے،گذشتہ 35سال کے دوران پانی جمع کرنے کیلئے ذخائر نہیں بنائے گئے ،دریا ئے سندھ کا سارا پانی بھارت سے نہیں آتا،دریائے سندھ میں مقامی ذرائع سے بھی پانی شامل ہوتاہے،پانی کے اخراجات کی 80فیصد حکومت ادائیگی کرتی ہے،لوگ پانی کے بلوں کی ادائیگی نہیں کرتے،بلوچستان سے 160ارب ٹیوب ویل استعمال کرنے والوںسے لینا ہے،پانی کا لیول نیچے جا رہا ہے ۔

پنجاب میں بھی بیسیوں ٹیوب ویل ااستعمال کرنے والوں نے بلوں کی ادائیگی کرنی ہے،پاکستان میں مارکیٹیں رات 2بجے تک کھلی رہتی ہیں اور دن کی روشنی ہم ضائع کرتے ہیں، پنجاب 65فیصد بجلی استعمال کرنے والا ملک کا بڑا صارف ہے کفایت شعاری سے بجلی بچائی جا سکتی ہے۔ بھارت ا فغانستا ن کو استعمال کرکے دریائے کابل کا مسئلہ بنا نا چاہتا ہے ۔بھارت نے دریائے جہلم پر تین،چناب پر دو پانی کے بہائو پر بجلی کے منصوبے لگائے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی جانب پانی کے بہائو میں کوئی فرق نہیں آیا ۔

پانی پاکستان کی طرف آتا ہے نیلم جہلم میں دس فیصد بجلی کی کمی جس کو کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے پورا کیا جائے گا،رتلے ڈیم کے تنازعہ کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز وزارت قانون سے مشاورت کے بعد قانونی ٹیم کا انتخاب کیا گیا ہے۔سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ پانی کے حوالے سے بھی نیشنل ایکشن پلان بنانے کی ضرورت ہے۔سینیٹر تاج حیدر نے کہا بتایا جائے بھارت نے کتنی دفعہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے،دریائے کابل اور دریائے سوات کے حوالے سے کابل سے معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

خواجہ محمد آصف نے کہامغربی دریائوں میں سے دو دریا چناب اور جہلم کشمیر سے آتے ہیں،بھارت مغربی دریائوں کے پانی پر ڈاکہ نہیں ڈال سکتا،سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت کے حکام کے درمیان پانی کے مسائل کے حوالے سے 112اجلاس ہوئے جبکہ 118معائنہ کے لئے ٹورز کئے گئے۔ دریائے کابل اور سوات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاافغانستان کوپن بجلی کی زیادہ ضرورت نہیںہے،کاسا ون 1000کے تحت 1300میگاواٹ میں سے 300میگاواٹ افغانستان کے حصے کی بجلی بھی پاکستان کو دی جائے گی اور جب افغانستان کو ضرورت پڑی تو پاکستان اپنے سسٹم سے بجلی دے گا۔

کابل کا پانی پاکستان کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے،پاکستان میں جب پانی کی کمی ہوتی ہے اس وقت دریائے کابل سے پاکستان کو پانی حاصل ہوتاہے۔سیکرٹری وزارت پانی و بجلی نے کہا اگر دریائے کابل اور سوات کے حوالے پاکستان افغانستان سے معاہدہ نہ کرے تو دو ملین ایکڑ فٹ پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا،معاہدے کے حوالے سے ڈرافٹ کا کام جاری ہے،خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ثالثی عدالت کیلئے عالمی بنک نے جنوری کے آخر تک وقفے کا کہا ہے۔

سینیٹر سعود مجید نے کہا سندھ طاس معاہدہ غیر منصفانہ ہے اور یہ نااہل لوگوں نے بنایا ہے،معاہدے میں لوئر ریپیرئن کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا گیا،معاہدے پر نظر ثانی ہونی چاہیے،معاہدے کی وجہ سے لوئر پنجاب اور اپر سندھ متاثر ہورہے ہیں۔ملک میں پینے کے پانی کا مسئلہ بھی شدت اختیار کرتاجارہاہے۔مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کی درخواست نہیں کرنی چاہیے البتہ 1960کے بعد دریائوں کے زیریں علاقو ں کے حقو ق کے تحفظ کے لئے بین الا قوامی کنونشن کے تحت ترمیم کی جاسکتی ہے ۔

چئیرمین کمیٹی نے اس حوالے سے وزارت پانی و بجلی اور وزارت خارجہ کو جائزہ لے کے جواب دینے کی ہدایت کر دی ۔خواجہ آصف نے کہاکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈس واٹر کمیشن کی صلاحیت بڑھانے کیلئے اقدامات کیے جارہے ہیں۔…(خ م+وخ)